×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / متفرق فتاوى جات / کیا عورت کے لئے جنازہ کی حالت میں یہ دعاء کی جائے گی؟ (اللھم أبدلھا زوجاََ خیراََ من زوجھا)

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2824
- Aa +

کیا جنازے میں عورت کے لئے یہ دعاء کی جائے گی جو کہ نبیﷺ سے بھی ثابت ہے کہ انہوں نے میت کے لئے دعاء کی؟ (اللھم أبدلہ زوجاََ خیراََ من زوجہ)۔’ ’اے اللہ اس کو اس کی بیوی سے بہتر بیوی عطاء فرما‘‘

هل يُدعى للمرأة في الجنازة بـقول: (اللهم أبدلها زوجًا خيرًا من زوجها)؟

جواب

حامداََ و مصلیاََ۔۔۔

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته

اما بعد۔۔۔

امام مسلم نے اپنی صحیح (۱۶۰۰) میں روایت کی ہے کہ حضرت عوف بن مالکؓ نے فرمایا: نبینے ایک جنازے پر نماز پڑھی تو میں نے ان کی دعاء حفظا یاد کر لی: ((اللهم اغفر له وارحمه، وعافه واعف عنه، وأكرم نزله، وأوسع مدخله، واغسله بالماء والثلج والبرد، ونقه من خطاياه كما نقيت الثوب الأبيض من الدنس، وأبدله دارا خيرا من داره، وأهلا خيرا من أهله، وزوجا خيرا من زوجه، وأدخله الجنة، وأعذه من عذاب القبر، وعذاب النار))۔ ترجمہ:’’اے اللہ اس کی مغفرت فرما اور اس پر رحم فرما، عافیت والا معاملہ کر اور اس سے درگزر فرما، بہترین ٹھکانہ اور وسعت سے داخل کر، اور اس کو پانی برف اور ٹھنڈے پانی دھو ڈال اور اس کو خطاؤں سے ایسے پاک کر جیسے سفید کپڑے کو گندگی سے پاک کیا جاتا ہے اور اسے بہتر ٹھکانہ عطاء فرما، اور اس کے اہل سے بہتر اہل عطاء کراور اس کی بیوی سے بہتر بیوی عطاء کر اور اسے جنت میں داخل کر اور اسے عذابِ قبر سے نجات دے اور آگ کے عذاب سے بچا‘‘۔ اور بعض اہلِ علم نے کہا ہے کہ اگر جنازہ عورت کا ہو تو ضمائز کے مطابق صیغہ استعمال کیا جائے گا، لہٰذا یہ کہا جائے گا:’’اللھم اغفر لھا‘‘۔

اور اس جملے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے (زوجاََ خیراََ من زوجھا) یعنی اس کے شوہر سے بہتر شوہر عطاء کر۔ بعض اہل علم کا یہ کہنا ہے کہ یہ دعاء نہیں کی جائے گی کیونکہ یہ عورت جنت میں بھی اپنے دنیا والے شوہر کی بیوی ہوگی اور یہ اس صورت میں ہے جب ذات کے اعتبار سے بہتر بدل کا سوال کیا جائے۔ حجاویؒ اپنی کتاب اقناع (۲۲۳/۱) میں کہتے ہیں: ’’یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس کو اس سے بہتر شوہر عطاء فرما‘‘۔اور ابن ابی زید القیروانی المالکیؒ رسالۃ (ص:۵۷) میں فرماتے ہیں: ’’اگر عورت ہو تو یہ کہو گے: اے اللہ تیری یہ بندی ہے ،پھر تم اس کے لئے مؤنث کی ضمیر کے ساتھ دعاء مانگو گے مگر یہ نہیں کہنا کہ اس کو اس سے بہتر شوہر عطاء کر، کیونکہ بالتحقیق یہ جنت میں اپنے دنیا والے شوہر ہی کی بیوی ہوگی اور جنت کی عورتیں اپنے مردوں تک ہی محدود ہوں گی اور وہ ان کے بدلے میں کوئی اور نہیں طلب کرسکتی اور آدمی کی تو جنت میں زیادہ بیویاں ہوسکتی ہیں جبکہ عورت کے متعدد شوہر نہیں ہو سکتے‘‘۔

 اور اگر جس کا سوال کیا گیا ہے وہ صفات کے اعتبار سے نعم البدل ہو تو یہ کہا جاسکتا ہے کیونکہ یہ کہنا اس بات سے معارض نہیں ہے کہ وہ آخرت میں اس کی بیوی ہو ، کیونکہ اس صورت میں مطلوب یہ ہے کہ اس کے شوہر کا حال مزید بہتر ہو۔ اور ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے برزخی زندگی میں عوض عطاء کریں گے اس مطلوب کے تحت۔ ایسا بدل جو اس سے اپنے اہل و عیال کی مفارقت کے بعد وحشت کو دور کرے گا لہٰذا اس صورت میں بدل سے مراد بدل ذات نہیں ہوگا۔

اور اس تعارض کے بارے میں علامہ ھیثمیؒ نے اپنی کتاب تحفت المحتاج (۱۴۰/۲) میں لمبی بحث کی ہے اور نہایۃ المحتاج (۴۷۶/۲) میں یہ کہا ہے: ’’اور اہل اور زوجہ کے بارے میں ظاہر یہ ہے کہ یہ اوصاف کا بدل ہوگا نہ کہ ذوات کا ، اللہ کا فرمان ہے: ہم نے ان کی اولاد کو ان سے ملا دیا‘‘۔ (الطور: ۲۱)۔

لہٰذا اس سب کے بعد مجھے جو راجح معلوم ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ ایسی دعاء مؤنث کے صیغے کے ساتھ مانگنے میں کوئی حرج نہیں۔ واللہ اعلم

آپ کا بھائی

أ.د خالد المصلح

8/ 4 /1425هـ


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں