×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / متفرق فتاوى جات / اپنی جنس بدلنے والے کے ساتھ معاملہ

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:1713
- Aa +

محترم جناب ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔ ہالینڈ کے ایک آدمی نے آپ کو عضو تناسل ختم کروا کر عورت میں تبدیل کروا لیا ہے اور اب وہ ہارمونز کا استعما ل کرتا ہے کہ اس تبدیلی پر برقرار رہ سکے۔ اس شخص کے دل میں اسلام گھر کر گیا ہے لہٰذا اللہ کی توفیق اور اس کی ہدایت سے اس نے اسلام قبول کر لیا ۔ لیکن مردوں نے اسے اپنے ساتھ نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی اورنہ ہی عورتوں کے ساتھ اسے نماز پڑھنے کی اجازت دی جارہی ہے جبکہ یہ بات بھی معلوم ہے کہ وہ جنس کے اعتبار سے عورت کی طرف میلان زیادہ رکھتا ہے نسبت مرد کے اور اب ہمیں اس کو کسی ایک طرف لاحق کرنے میں دشواری کا سامنا کر رہیں ہیں۔ تو آپ سے گزارش ہے کہ اس معاملہ میں ہماری رہنمائی کریں اور جتنا جلد ہو سکے اس بارے میں فتوی صادر فرمائیں۔ اللہ آپ کی عمر میں برکت دے

معاملة مَن غيَّر جنسَه

جواب

حامداََ و مصلیاََ۔۔۔

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته

اما بعد۔۔۔

آپ لوگوں پر واجب ہے کہ ایسے شخص کے ساتھ بڑی نرمی والا برتاؤ رکھیں اور حسنِ معاملہ سے کام لیں اور اس کو اسلام پر برقرار رہنے کی ترغیب دیتے رہیں۔ اور جہاں تک اس کی جنس کا تعلق ہے تو وہ مذکر ہے کیونکہ وہ اپنی اصل جنس کے اعتبار سے مرد ہی ہے اگرچہ اس نے آپریشن کروا کر اپنا عضو تناسل ختم کروا دیا ہے۔ اور یہ بات آپ پر لازم ہے کہ اسے ہارمونز (جوکہ عورتوں والے اوصاف برقرار رکھے ہوئے ہیں) کے استعمال سے منع کریں اور یہ بات سمجھائیں کہ اسے کوشش کرنی چاہئے کہ اپنی اصل مردانہ صفات کو واپس لوٹائے، اور آپ حضرات کو چاہئے کہ اس کی اعانت کریں اور اس کے ساتھ سمجھوتہ کریں۔

اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اس کو مردوں کے درمیان قبول نہ کیا جائے تو اگر یہ اس وجہ سے ہو کہ فتنے کا خدشہ ہو تو اس کے معاملے میں احتیاط سے کام لیا جائے گا اور ایسی صورت اختیار کی جائے جو فتنے سے دور کرے جیسا کہ فقہاء اسلام نے بے ریش سے مصافحہ کے معاملے میں ذکر کیا ہے۔ لیکن آپ کے لئے یہ جائز نہیں کہ اسے جماعت اور جمعہ کی نماز میں آنے سے روکا جائے ۔ ہاں ! اس کو نرمی اور حکمت کے ساتھ بتایا جائے کہ لباس اور ہیئت یا فعل کے اعتبار سے یا جو کچھ بھی فتنے میں ڈالنے کا احتمال رکھتا ہو اس سے روکا جائے۔ واللہ اعلم

آپ کا بھائی

أ.د. خالد المصلح

9/ 11 /1428هـ


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں