×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / متفرق فتاوى جات / عورت اور مرد کے درمیان کام یا پڑھائی کے مقام پر آپس میں معاملہ کرنے کی حدود

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2344
- Aa +

محترم جناب ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔۔۔ عورتوں اور مردوں کے لئے میڈیکل کے میدان میں باہمی معاملہ (جوکہ شرعاََ جائز ہو) کی کیا حدو د ہیں؟ مثلاََ طلباء اور طالبات کی صورت میں یا مرد ڈاکٹر اور لیڈی ڈاکٹر کی صورت میں؟

حدود المعاملة بين المرأة والرجل في أماكن العمل والدراسة

جواب

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔

اما بعد۔۔۔

عورت کا مرد سے بات کرنا دو قسم کا ہوتا ہے:۔

پہلی قسم: اس کا مرد سے کوئی ایسی بات کرنا جو ضرورت یا کسی عام یا خاص مصلحت کی وجہ سے ہوتو یہ صورت جائزہے اور اس کے جواز پر کتاب اللہ اور سنت رسولمیں دلیل موجود ہے لیکن یہ بھی واجب ہے کہ کلام مصلحت اور حاجت کے بقدر ہو بغیر کسی غیر ضروری زیادتی کے اور یہ کہ عورت بات کے دوران ضرورت سے زیادہ لہجے میں نرمی اختیار نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اپنے قول میں جھکاؤ مت پیدا کرو (نرمی،میلان) کہ جس کے دل میں مرض ہے وہ (بری) طمع نہ کرنے لگے بلکہ اچھائی کی بات کرو‘‘۔ (الاحزاب: ۳۲) ۔

اللہ رب العزت نے نبیکی ازواج جوکہ اہلِ ایمان میں سے پاکیزہ ترین عورتیں ہیں حکم فرمایاکہ اپنے کلام میں ایسی نرمی بھی نہ پیدا کریں جو کہ غلط قسم کے لوگوں کے دل میں ان کے بارے میں طمع پیدا کردے۔ ابن العربیؒ اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ ان کے کلام میں خوبصورتی ہو اور ان کا کلام فصیح ہو اور ایسی صورت نہ ہو جو کہ سامع کے دل میں کسی ایسے تعلق کا شبہ دے جو نرمی سے پیدا ہو۔

دوسری قسم: عورت کا مرد سے ایسی بات کرنا جو ضرورت اور مصلحت سے خالی ہو بغیر کسی مراعات کے جو کہ پیچھے گزر گئیں ہیں ، تو یہ جائز نہیں ہے۔ اور اس میں مباح و غیر مباح سب داخل ہے جس میں کسی بھی قسم کا شبہ ہو۔

اور جہاں تک مرد و عورت کا ایک دوسرے کو نظر اٹھا کر دیکھنے کا تعلق ہے تو اس کے بھی مختلف احوال ہیں:۔

پہلی حالت: نظر ایسی ہو جو شہوت کی وجہ سے اٹھی ہو یا اس سے فتنے کا خدشہ ہوتو یہ حرام ہے اور اس کی حرمت پر اہلِ علم کا اتفاق ہے جیسا کہ امام جصاصؒ ، امام نووی ؒ اور دیگر علماء نے ذکر کیا ہے۔

دوسری حالت: نظر کسی حاجت کی بناء پر ہوتو یہ جائز ہے کیونکہ مطلقاََ نظر کی حرمت ان وسائل کی وجہ سے ہے جو کہ ضرورت کی وجہ سے اباحت کی طرف لے جاتے ہیں۔

تیسری حالت: ایسی نظر ہو جو کہ نہ شہوت کی وجہ سے ہو نہ ہی حاجت کی بناء پر ہو اور فتنے کا اندیشہ بھی نہ ہو تو اس بارے میں اہلِ علم کا اختلاف ہے جو کہ بالجملۃ دو اقوال پر مشتمل ہے:۔

پہلا قول: یہ صورت جائز ہے اوریہ مذہب امام ابو حنیفہ ؒ ، امام مالکؒ اور امام احمدؒ کا ہے اورامام شافعی کا بھی ایک قول یہ ہے۔ اور ان حضرات نے متعدد روایات سے استدلال کیا ہے، ایک تو امام بخاریؒ (۴۵۵) اور امام مسلم ؒ(۸۹۳)نے نقل کی ہے: حضرت وعائشہ ؓ فرماتی ہے: ’’میں نے رسول اللہکو دیکھا کہ انہوں نے مجھے اپنی چادر میں چھپایاہوا ہے اور میں احباش کو دیکھ رہی تھی کھیلتے ہوئے، اور اس وقت میری عمر کم تھی‘‘۔ اور امام مسلم ؒ نے روایت کیا ہے(۱۴۸۰) ابو سلمہ عن فاطمہ بنت قیسؓ کے طریق سے کہ رسول اللہنے فرمایا: ’’ابن ام مکتوم کے ہاں عدت گزاروچونکہ وہ اندھا شخص ہے اور تم اپنے کپڑے ان کے ہاں اتارتی ہو‘‘۔ اور ان ائمہ نے اس آیت کو جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور مؤمن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں نیچی کریں‘‘ (النور ۳۱)کو محمول کیا ہے کہ ایسی ممنوع جگہیں وغیرہ جن کا دیکھنا حرام ہے ان سے نظریں جھکائیں۔

دوسرا قول: یہ صورت ناجائز ہے اور یہ مذہب امام شافعیؒ کا ہے اور امام احمدؒ کی بھی ایک روایت ہے اور انہوں نے اس آیت سے استدلال کیا ہے : ’’اور مؤمن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں نیچی کریں‘‘ (النور ۳۱) اور ساتھ ساتھ اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جو کہ امام ابوداود ؒ(۴۱۱۲) اورامام ترمذیؒ (۲۷۷۸) نے امِ سلمہ کے طریق سے نقل کی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ وہ اور میمونہ رسول اللہکے پاس تھیں ، فرماتی ہیں کہ ہم آپکے پاس تھیں کہ ابن امِ مکتوم آئے اور داخل ہوئے اور یہ تب کی بات ہے جب حجاب کا حکم نازل ہو چکا تھا تو رسول اللہ نے فرمایا: ’’اس سے پردہ کرو‘‘ تو میں نے کہا: یا رسول اللہ کیا یہ اندھے نہیں ؟ نہ ہمیں دیکھ سکتے ہیں نہ ہی پہچانتے ہیں، تو رسول اللہ نے فرمایا: ’’کیا تم دونوں بھی اندھی ہو؟ کیا تم دیکھتی نہیں؟‘‘ امام ترمذیؒفرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح حسن ہے۔

اور ان دونوں اقوال میں زیادہ اقرب الی الصواب جواز کا قول ہے الا یہ کہ شر اور فتنہ کا خدشہ ہو کیونکہ ایسی صورت سب کے ہاں بالاتفاق حرام ہے۔ اور اسی ضمن میں یہ صورت بھی آجاتی ہے کہ عورت آدمی کو غور و تدبر کے ساتھ دیکھے اور اس کے حسن وجمال میں تأمل کرے کیونکہ اس نظر میں بھی غالب شہوت کی ہے لہٰذا جائز نہیں۔ اور جو حرمت کا کہنے والی فریق نے استدلال کیا ہے اس حدیث کا دارومدار امِ سلمہؓ کی حدیث پر ہے اور اس حدیث پر اہل علم نے (نبھان مولی امِ سلمہ ؓ) کی وجہ سے کلام کیا ہے اور یہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کی روایات سے حجت نہیں پکڑی جاتی اور جواب میں یہ بھی کہا گیا ہے جو کہ ابودواودؒ نے کہا کہ یہ خاص ازواجِ نبیکے ساتھ ہے ، کیا فاطمہ بنت قیس ؓ کا ابن امِ مکتوم کے ہاں عدت گزارنا سامنے نہیں جبکہ رسول اللہنے فاطمہ بنت قیس ؓ سے کہا:  ’’ابن ام مکتوم کے ہاں عدت گزاروچونکہ وہ اندھا شخص ہے اور تم اپنے کپڑے ان کے ہاں اتارتی ہو‘‘۔ اور جہاں تک آیت کا تعلق سے تو اس میں

نظریں ان عناصر سے نیچے کرنے حکم ہے جن سے منع کیا گیا ہے اور آدمی کا چہرہ خاص طور پر جب شہوت بھی نہ ہوتو ممنوعات میں داخل نہیں اور اسی جواز پر بخاریؒ کی حدیث(۹۸۸) اور مسلمؒ کی روایت (۸۹۲)جو کہ زہری عن عروۃ عن عائشہؓ کے طریق سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا:’’میں نے رسول اللہکو دیکھا کہ انہوں نے مجھے اپنی چادر میں چھپایاہوا ہے اور میں احباش کو دیکھ رہی تھی کھیلتے ہوئے‘‘۔ واللہ تعالیٰ اعلم

آپ کا بھائی

أ.د. خالد المصلح

14 / 5 / 1428 هـ


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں