×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / متفرق فتاوى جات / ماں کے پیٹ میں بچے کی جنس کی تعین کرنا

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:3366
- Aa +

محترم جناب السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ کیا خاوند بیوی کے لئے جائز ہے کہ پیٹ میں موجود بچے کی جنس اختیار کرنے کے لئے وسائل کا استعمال کریں۔ ایسے وسائل جو جدید میڈیکل سائنس کا نتیجہ ہو؟

تحديد جنس الجنين

جواب

حامداََ و مصلیاََ۔۔۔

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته

اما بعد۔۔۔

غیر مولود بچے کی جنس متعین کرنے کا اہتمام اور اس کے لئے مختلف طریقوں سے بحث اور تحقیق کرنا کوئی نئی بات نہیں،بلکہ یہ ایسا مسئلہ ہے جس کی جڑیں بہت پرانی ہے ۔ جدید امر تو اس مسئلہ میں یہ ہے جو کہ وسائل اور مختلف طریقوں میں ترقی آگئی ہے اور جن سے نر اور مادہ ہونے کی تعین ہوتی ہو۔

اصل یہ ہے کہ جنین یعنی غیرمولود بچے کی جنس متعین کرنا جائز ہے اور یہ جواز ایک بڑی پختہ بنیاد پر مذکور ہے اور وہ یہ کہ وہ اشیاء جن میں کوئی دلیلِ حرمت یا نہی وارد نہ ہوئی ہو ان میں اباحت کا حکم ثابت ہوتا ہے۔ اور جواز والے قول کو تقویت اس بات سے بھی ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض انبیاء کے ساتھ ان کی دعاء کے مطابق معاملہ کیا وہ انبیاء جنہوں نے اپنی دعاؤں میں اللہ سے بیٹا مانگا۔ جیسا کہ ابراہیم ؑ کی دعاء ہے جوکہ اللہ نے قرآن میں ذکر کیا ہے: ’’اے میرے رب مجھے صلحاء میں سے اولاد عطاء کر‘‘۔ (الصافات:۱۰۰)۔  اور اللہ کے نبی زکریا ؑ نے بھی دعاء کی: ’’وہاں زکریا نے اپنے رب سے دعاء مانگی ، کہا اے میرے رب ! مجھے اپنے پاس سے پاک اولاد عطاء فرما، بے شک آپ دعاء سننے والے ہیں‘‘۔ (آل عمران: ۳۸)۔

اور جہاں تک جنین کی جنس کی تعین کرنے والے وسائل کا تعلق ہے تو ان کو دو قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: ایک تو عام وسائل جو میڈیکل سے تعلق نہ رکھتے ہو۔ دوسرے میڈیکل سے تعلق رکھنے والے وسائل۔

پہلی قسم: غیر طبی عام وسائل ، یہ وہ وسائل ہیں جو میڈیکل سے تعلق نہیں رکھتے جیسا کہ غذائی نظام یا انزال کا اثر مرتب ہونے کا غالب گمان کے مطابق جماع میں وقت کا تعین یا دیگر اس طرح کے وسائل۔۔۔ لہٰذا یہ مباح اسباب پر مبنی ہیں جن میں کوئی ممانعت نہیں ہے اور ان کے ذریعے مقصد بھی ایسا حاصل کرنا ہے جو کہ مباح ہے۔

لیکن وقت کی تعیین چاند کے حساب سے کرنا اور طرح چینی کلنڈر کا استعمال اور دیگر حساب سے تعلق رکھنے والے طریقے یہ سب نا جائز ہے چونکہ حقیقت میں تو یہ تخمینہ ہے جس کا تعلق علمِ نجوم سے ہے اور یہ علمِ غیب کا دعویٰ کرنے کے مترادف ہے۔

دوسری قسم: طبی وسائل، تو یہ طبی وسائل مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مدار پر جمع ہوتے ہیں اور وہ یہ کہ ان میں تلقیح پائی جاتی ہے (یعنی عورت کے تولیدی انڈوں) کا ملاپ منی کے ان (ذرات) سے کرنا جوکہ مطلوبہ جنس کے حصول کے لئے کارآمد ہوتے ہیں ۔ ان وسائل کے استعمال میں حاجت کے وقت کوئی حرج نہیں مگر اس بات کی تأکید کے ساتھ کہ ان ضوابط کو مدّنظر رکھا جائے جو کہ فساد کے واقع ہونے سے مانع ہو۔ لہٰذا اس معاملہ میں جو بھی پڑے، چاہے جس ملک اور دین کا بھی ہو اس کو ان ضوابط کے اہتمام کی تلقین ضرور ی ہے۔

اور ان ضوابط کو اجمالاََ مندرجہ ذیل نکات میں دیکھاجا سکتا ہے:۔

۱:۔ جنین کی جنس کی تعین کا عمل اتنا عام نہ ہو کہ لوگوں کے نسل کی طبعی توازن میں خلل آئے۔

۲:۔ ان وسائل کا استعمال بقدر حاجت ہو۔

۳:۔ جنین کی جنس کی تعین میاں بیوی کے باہم رضامندی سے ہو۔

۴:۔ سب سے سخت تأکید یہ ہے کہ منی کا ایسا اختلاط قطعاََ نہ ہو جس سے حسب و نسب میں اختلاط واقع ہو۔

۵:۔ شرمگاہ کو ستر میں رکھنے کا اہتمام ہو اور یہ ایسی صورت میں ہو کہ بقدر ضرورت و حاجت عضو کا حصہ مکشوف کیا جائے۔

۶:۔ اعتقاد یہ رکھا جائے کہ یہ وسائل مطلوب کے حصول کے لئے محض اسباب کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ کہ دعاء سب سے قوی سبب ہے اور اس کی تأثیر بھی زیادہ ہے۔ واللہ اعلم

پ کا بھائی

أ.د. خالد المصلح

7 /10/1428هـ


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں