×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / روزه اور رمضان / کیا عورت پر واجب ہے کہ قضا روزے کے لیے اپنے شوہر سے اجازت لے؟

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:4573
- Aa +

کیا عورت پر واجب ہے کہ قضا روزے کے لیے اپنے شوہر سے اجازت لے؟

هل يجب على المرأة أن تستأذن زوجها في صيام القضاء؟

جواب

حامداََ و مصلیاََ۔۔۔

اما بعد۔۔۔

اللہ تعالی کی توفیق سے جواب دیتے ہوے ہم عرض کرتے ہے کہ

صحیحین کے اندر ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( عورت روزہ نہ رکھے جب اسکا شوہر موجود ہو ( حاضر ہو ) سواے اسکے اجازت سے )) اور اسکا معنی یہ ہے کہ عورت روزہ نہ رکھے بغیر شوہر کی اجازت کے اور یہ حکم نفلی روزہ میں تو بلکل یقین کے ساتھ ہے ۔
لیکن جہاں تک فرض روزہ کی بات ہے تو اگر وقت میں گنجائش نہ ہو یعنی کے رمضان سے پہلے دن کم پڑجائے ( جمہور کے قول کے مطابق کے کہ روزوں کی قضا آئندہ رمضان سے پہلے واجب ہے ۔) پس اس عورت کے لیے روزہ رکھنا جائز ہے اگرچہ شوہر اجازت نہ دے ۔ لیکن اگر وقت میں گنجائش ہو تو پھر اجازت لے لے ۔
کیونکہ ممکن ہے شوہر کو اسکی ضرورت پڑجائے تو اس وقت وہ عورت کہتی ہوگی کے میں روزے سے ہوں ۔ جبکہ شوہر نے اسکو اجازت دی نہیں تھی تو اسکو مجبور کریگا روزہ کھولنے پر اور اس عورت کو پریشانی لاحق ہوگی ۔ پس بہتر ہے کہ اجازت لے شوہر سے ۔

خلاصہ کلام یہ ہے ۔ اگر وقت میں گنجائش ہو تو اجازت لینا واجب نہیں لیکن اگر عورت شوہر کو بتادے کہ وہ روزہ رکھے گی تو اس میں انکے آپس کے تعلق کے لیے بہتری ہوگی ۔
اور یہ فرض روزے کا حکم ہے ۔
اور جہاں تک نفل روزہ کی بات ہے تو اگر وقت میں گنجائش ہو تو عورت اجازت طلب کرے جیسے کے ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کے حدیث میں ہے (( عورت روزہ نہ رکھے جب اسکا شوہر موجود ہو )) 
اور یہ حکم تب ہے جب عورت نہ جانتی ہو کہ شوہر اجازت دیگا کہ نہیں ۔
اور ممکن ہے کہ جن حالات میں مرد کی ایک سے زیادہ بیویاں ہو تو جس دن شوہر بیوی کے پاس نہ ہو تو اس دن وہ شاہد بھی نہ ہوگا  ( موجود یا حاضر شمار نہیں کیا جائگا ) جیسے کے حدیث کی عبارت سے ظاہر ہے ۔
کیونکہ (( حضور صلی اللہ علیہ وسلم جویریہ رضی اللہ عنہا کے پاس داخل ہوے تو فرمانے لگی میں روزے سے ہوں ۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا گزشتہ کل بھی روزہ رکھا تھا ۔ فرمایا : نہیں ۔ فرمایا : کیا آئندہ کل روزہ رکھو گی ۔ فرمایا : نہیں ۔ فرمایا : روزہ کھول لو )) 
اس روایت سے ظاہر کہ جویریہ رضی اللہ عنہا نے اجازت نہیں لی تھی کیونکہ حضور نے گزشتہ کل اور آئندہ کل دونوں کا پوچھا ۔ پس ظاہر  یہی لگ رہا ہے کہ جویریہ رضی اللہ عنہا نے اجازت نہیں لی تھی اور ممکن ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم شاہد ( موجود یا حاضر) بھی نہ تھے ۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم جویریہ رضی اللہ عنہا کے دن میں نہ تھے ۔ اور یہ تخریج ہے ۔ 
یا پھر یو کہا جائے کہ اگر عورت کو معلوم ہو کہ اسکا شوہر انکار نہیں کریگا اور کلھی اجازت دیگا اور وہ دل سے روزہ کی اجازت دیگا تو اس حال میں عورت کا اجازت طلب کرنا ضروری نہیں ۔ 
بہرحال اجازت لینا ہی احتیاط کا راستہ ہے اور افضل بھی ہے ۔


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں