×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / روزه اور رمضان / نبیﷺ شعبان کے روزے کثرت سے کیوں رکھتے؟

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:3184
- Aa +

نبیﷺ شعبان کے روزے کثرت سے کیوں رکھتے؟

لماذا كان النبي صلى الله عليه وسلم يكثر من صيام شعبان؟

جواب

حامداََ و مصلیاََ۔۔۔

اما بعد۔۔۔

اللہ تعالی کی توفیق سے جواب دیتے ہوے ہم عرض کرتے ہے کہ

 دینی وشرعی اعمال اور احکامات کی علتیں  اور راز تک پہنچناعلم کا عین مقصود ہے۔  چاہے کتاب اللہ کی آیات میں ہو یا نبی ﷺ کی سنت میں۔ اوریہ ان بڑی منافع میں سے ہے جوانسان کتاب اللہ اورسنت رسول کاعلم حاصل کرنے کے بعد حاصل کرتا ہے۔ کیونکہ اس کےساتھ بات کے سمجھنے کے لیےسینہ کھل جاتا ہے اور  حکمت وعلم رکھنے والے رب کے احکامات و تشریعات میں حکمت کا پانا حاصل ہوتا ہے۔ جوکہ انسان کوعمل پر ابھارتی ہے۔  یہا ں تک کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: جیساکہ صحیحین میں ہے:{نبی ﷺ کسی مہینے کے مکمل روزے نہ رکھتے سوائے شعبان کے بلکہ یہ مہینہ سارا روزہ  رکھتے}۔ اور بعض روایات میں ہے کہ { آپ ﷺ شعبان کا مہینہ روزہ رکھتے سوائےچند کے }۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ اس فضیلت والےمہینے میں روزے رکھنے اور روزے کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرنے کو خاص توجہ فرماتے۔

لہذا بعض علماء نے نبی ﷺ کا اس مہیںہ میں روزوں کی کثرت کا راز یا علت  ڈھونڈا تو اس کے متعلق انہوں نےکئی اقوال بتائیں۔ جن میں سے بعض کچھ احادیث کی طرف منسوب ہے اور بعض اعمال کے رازوں میں غوروفکر کرنے کا ثمرہ ہے۔ بہرحال وہ اقوال جو آثار کی طرف منسوب ہے۔ تو ایک روایت میں وارد ہے کہ شعبان میں اعمال اللہ کےسامنے پیش ہوتے ہیں اس وجہ سے آپﷺ شعبان میں زیادہ روزے رکھا کرتے تھے۔ کیونکہ آپ ﷺ  پسند فرماتے کہ آپ  کا عمل اس حالت میں پیش ہو کہ آپ ﷺ روزے سے ہو۔ جیسا کہ سومواراور پیر کےروزوں کےبارے میں آیا ہے۔ البتہ جوحدیث اس بارے میں آئی ہے وہ صحیح نہیں۔ بلکہ اس کی اسناد ضعیف ہیں۔ اور اگر چہ بعض علماء نے اس کو صحیح کہا ہے۔ لیکن جو تحقیقی نظر سے دیکھنے والےلوگ ہیں انہوں نے اس کے ثبوت کو قوی نہیں مانا، کیونکہ یہ ایسی حدیث ہے جس سے دلیل نہیں پکڑی جاسکتی جیسا کہ ظاہرہوتا ہے واللہ اعلم۔ لیکن بعض اہل علم اس کے قائل ہیں۔

تو خلاصہ کلام یہ ہے کہ:

 پہلی علت یہ ہےکہ یہ ایسا مہیںہ ہے کہ اس میں اعمال اللہ کےسامنے پیش ہوتے ہیں۔ اسی وجہ آپ ﷺ اس میں روزے  زیادہ رکھتے کیونکہ آپ ﷺ پسند فرماتے تھے کہ آپ کاعمل اس حال میں پیش ہو کے آپ ﷺ روزے سے ہو۔

دوسری علت وہ ہے جس کو علماء کی ایک جماعت نے ذکرکیا کہ نبیﷺ سفر، جہاد اورلوگوں کے فلاحی کاموں میں مشغول ہوتے تھے تو آپﷺ کو اس بات کی  فرصت نہیں ملتی تھی کے ہر مہینے میں تین مسنون روزے رکھے، تو بعض اوقات مہینہ گزرجاتا اوراس میں کوئی ایک روزہ بھی نہ رکھ پاتے۔ باوجود اس کہ آپﷺ نے اس مہینے کے روزوں کو پسند فرمایا ،عائشہ ؓ فرماتی ہے کہ {آپ ﷺکبھی کبھاراتنے روزے رکھتےیہاں تک  کہ ہم کہتے کہ آپ ﷺ نے افطار نہیں کرنا اور کبھی اتنا زیادہ افطار کرتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپﷺروزہ نہیں رکھیں گے}۔ توان حضرات نےکہا کہ آپ ﷺ یہ روزے ان رزوں کے بدلے میں رکھتے جو نفل روزے ان سے ان مہینوں میں فوت ہوچکے ہوتے یا شعبان کے روزے  فوت ہوچکے ہوتے تھے۔

تیسری وہ علت جو بعض اہل علم نے شعبان کےروزوں کےبارے میں ذکرکی ہے وہ یہ ہے کہ یہ اس سنت کی طرح ہے جو فرض سے پہلے ہو کیونکہ شعبان کے روزے رکھنا اپنے نفس کو تیار کرنا ہے اوراس کو مشق کروانی ہے اوربدن کو تقویت پہنچانی ہے یہاں تک کہ جب فرض روزوں کاوقت ہوتو نفس قوی،تیار ہوچکی ہو،اور اپنے آپ کو طلوع فجر سے لےکرغروب شمس تک روکنے پر مشق بھی ہوچکی ہو، تو یہ فرض کے آنے سے پہلے نفس کی تیاری اور مشق کرانا ہے۔ اور یہ بات نمازمیں بھی ثابت ہے۔ کیونکہ نبیﷺ نے فرمایا کہ{ ہر دو اذانوں کے درمیان ایک نمازہے }۔ اور اسی طرح آپ ﷺ فجر سے پہلے نماز پڑھنے پراور ظہر سے پہلے کے سنت پر بھی حریص تھے۔ آپﷺ سے ثابت ہے کہ آپﷺ فرض سے پہلے نفس کی تیاری کی خاطر نماز پڑھتے تھے۔  اور یہی وجہ ہےکے بعض اہل علم  نے اسی اہتمام کی بنیاد پر وسعت دی ہے۔ تو انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ یہ ایسا مہینہ ہے کہ جس میں قرآن کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ کیونکہ قرآن رمضان میں مشغول ہونے کی جگہ ہے۔ پس قرآن کامہینہ رمضان کامہینہ ہے۔ اور وہ قرآن رمضان کے مہینے میں زیادہ پڑھتے بہ نسبت دوسرے مہینوں کے۔ جیسا کے ابن رجب ؒ نے لطائف المعارف میں ذکرکیا ہے۔

تو یہ اقوال ان علتوں کےبارے میں خلاصہ ہے جوعلماء نے شعبان کے روزوں کے بارے میں فرمائے ہیں۔ اور سب سے زیادہ قریب ترین قول ان اقوال میں وہ آخری قول ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ نفس کوتیار کرناہے اور اس کواس بات پرعادی بناناہے کہ روزوں میں مشغول ہو یہاں تک کہ جب فرض روزوں کاوقت شروع ہوجائے تو اس فریضے کی ادائیگی کےلئے نفس تیار ہو۔


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں