×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / روزه اور رمضان / خون جمنے کی بیماری میں مبتلا ہونا اور ڈاکٹروں کا روزہ رکھنے سے منع کرنا

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2328
- Aa +

ایک عورت کو خون جمنے کی بیماری ہے اور ڈاکٹروں نے اس کو روزہ رکھنے سے منع کیا ہیں اب اس کے لئے کیا حکم ہے؟

مصابة بجلطة ومنعها الأطباء من الصيام

جواب

حامداََ و مصلیاََ۔۔۔

اما بعد۔۔۔

اللہ کی توفیق سے ہم آپ کے سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ

 یہ مرض اللہ کے اس فرمان میں شامل ہے: (جوتم میں سے مریض ہویا سفرمیں ہوتو اس پر گنتی کے روزے ہےدوسرے دنوں میں)(البقرۃ:۱۸۴)۔

 پس وہ مرض جو روزہ توڑنا جائز کردیتا ہے اس میں علماء کے کئی اقوال ہیں۔ ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ ہرمرض افطار کوجائزقراردیتا ہے چاہے اس میں روزہ کی وجہ سے اثر پڑتا  ہو یا نہ پڑتا ہو اوریہ امام بخاری ؒ اوراہل علم کی ایک جماعت کا مذہب ہے۔

اورایک جماعت اس بات کی طرف گئی ہےکہ جس مرض میں انسان کو روزہ رکھنے کی وجہ سے مشقت پہنچتی ہو صرف وہی روزہ افطارکرنے کو جائزکردیتا ہے۔ تو اس لحاظ سے وہ مرض جس میں روزہ رکھنے کی وجہ سے مشقت نہ پہنچتا ہو تویہ روزہ افطار کرنے کوجائزنہیں کرتا۔ مثلا جو جلدی امراض ہے کہ جس میں روزہ رکھنے سے کوئی اثر نہیں پڑتا اورآنکھ اوربینائی کے امراض کہ جن میں روزہ سے کوئی اثر نہیں پڑتا ، اوراسی طرح وہ امراض جن کو روزہ مزید بڑھاتی نہیں اور نہ اس کی وجہ سے ٹھیک ہونے میں دیر لگتا ہو اورنہ اس میں کوئی مشقت ہوتی ہے، تویہ روزہ افطارکرنے کو جائزنہیں کرتی ۔ اوریہی اکثرعلماء کاقول ہےَ۔

اور ایسے امراض جن میں روزہ اثر کرتا ہے، تو یہ دوقسموں میں تقسیم ہوتی ہے:

 ایک وہ امراض جو وقتی ہے اور ان کےختم ہونےاورہٹنےکی امید ہوتی ہے تویہ امراض روزہ افطار کرنا جائز کردیتی ہیں اور اس طرح کی بیماری والوں پر اس کی قضاء واجب ہوتی ہے۔ پس اگرانسان کوایسا مرض لاحق ہو جسکو روزہ اور زیادہ کرتا ہو یا پھر روزہ رکھنے سے ٹھیک ہونےمیں دیرہوجاتی ہو یا پھر انسان کوعام عادت سے زیادہ مشقت محسوس ہو اوراس سے اسکو کو شدید تھکاوٹ ہوتی ہو توان جیسے بیمار اشخاص کےلئے روزے کا افطار کرنا جائز ہے۔ لیکن پھر بھی ان کےذمے اس دن کا قضاء واجب ہے جس دن میں انہوں نے روزہ افطار کیا تھا، اللہ کےاس قول کی وجہ سے: (اور جو تم میں مریض ہو یا سفرمیں ہوتواس پر گنتی کے روزے ہے دوسرے دنوں میں) (البقرۃ:۱۸۵)۔

اوراگرمرض ایسا ہو کہ ٹھیک ہونے کی امید ہی نہ ہو اورنہ ختم ہونےکا توقع ہو اور ہم یہ بات اس لحاظ سے نہیں کہہ رہیں کہ اس بیماری کی شفاء ممکن ہی نہ ہو،بلکہ اس لحاظ سے کہ جس طرح کی عام حالت ہوتی ہے اورغالب یہی ہوتا ہے کہ شفاء کی امید ہی نہیں ہوتی، ورنہ اللہ تو ہرچیز پر قادر ہے تواس طرح کےمرض والے پر روزہ رکھنا لازم نہیں کیونکہ یہ اللہ کےاس قول میں داخل ہوگا (اورجوتم میں مریض ہو یا سفرمیں ہوتواس پرگنتی کے روزے ہےدوسرے دنوں میں)(البقرۃ:۱۸۵) پس اللہ نے اس کو روزہ کھولنے کی اجازت دی ہے لیکن اس کےلئے دوسرے دنوں میں اتنے ہی روزے رکھنا ممکن نہیں۔ کیونکہ اس مریض کے لیے روزہ رکھنے کی قدرت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے چاہے رمضان میں ہو یا غیررمضان میں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس کے ذمے قضاء لازم نہیں ہے لیکن اس کے ذمہ روزہ کھولنے کی وجہ سے ایک مسکین کوکھانا کھلانا واجب ہے۔ تاکہ اس کو بھی اس قسم کے لوگوں میں ملایا جائے جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے، جیسا کہ اللہ کے اس قول میں ذکر ہوا ہے (اوران لوگوں پر جن کی استطاعت ہو فدیہ ہے جو ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے)(البقرۃ:۱۸۴)

اورصحیح میں حضرت ابن عباسؓ کی روایت ہے: (یہ آیت منسوخ نہیں ہے،بلکہ یہ بڑٰی عمر کے مرد اور بڑی عمرکی عورت کےبارے میں ہے جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے پس ایسے اشخاص افطار کریں اور ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے) اورحضرت انسؓ نے اس طرح ہی کیا تھا جیسا کہ صحیح میں ہے: (جب وہ بوڑھےہوئے اور ان کی عمر زیادہ ہوئی اور روزہ رکھنے سے عاجزہوئے تووہ ہردن کے بدلے ایک مسکین کو کھلایا کرتے تھے)۔

پس اس حکم میں ایسا مریض جس کا ٹھیک ہونےکی امید نہ ہو اور وہ بوڑھا جو روزہ رکھنےسےعاجزہو دونوں شامل ہیں۔

لہذا یہ عورت جس کو خون جمنے کی بیماری ہے تو یہ بھی اس قسم کی بیمارہے۔ کیونکہ وہ ایسی مریض ہےکہ جس کےٹھیک ہونے کی امید ہی نہیں پس اگر ایسا مرض ہو جس کی ٹھیک ہونےکی امید ہو جیسا کہ بعض اوقات اس جیسی بیماریوں میں ہوتا ہے تو پھرافطارکرے گی اوربعد میں قضا کریگی۔

اور حقیقت میں اس خون جمنے والے بیماری کے کئی قسمیں ہیں کچھ  تو ایسی ہیں کہ جس سے ہوش ختم ہوجاتی ہے اورکچھ کی ٹھیک ہونے کی امید ہوتی ہے اورکچھ کی ٹھیک ہونے کی بالکل امید نہیں ہوتی پس جس سے ہوش ختم ہوجاتی ہے تو اس قسم میں نہ روزہ واجب ہے اورنہ کھانا کھلانا۔ اور جس سے ہوش ختم نہیں ہوتی تو اگر اس کے بیماری کے ختم ہونے کی اورمریض کےحالت بہتر ہونے کی امید ہو تو اسکا انتظار کیا جائے یہاں تک کہ روزے رکھنے کی استطاعت حاصل ہوجائے اور پھر اسکی قضاء کرے، اس لیے کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا (اورجوتم میں سے مریض ہو یا سفر میں ہو تواس پر گنتی  کے روزے ہے دوسرے دنوں کی)(البقرۃ:۱۸۵)۔

اوراگریہ بیماری تیسری قسم میں سے ہو جس کا اثر دائمی ہوتا ہے اورٹھیک ہونے کی امید بھی نہیں ہوتی پس ایسا شخص ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے ،اگر یہ بیماری اسے کمزور کرتی ہو اور وہ روزہ رکھنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو ۔


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں