×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / متفرق فتاوى جات / امتحانوں میں یا دیگر مدرسہ کے واجبات میں چیٹنگ کرنا

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2556
- Aa +

محترم جناب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔ کسی طالبہ کا اپنے کئے ہوئے واجباتی کام میں سے اپنی سہیلیوں کو دینا کہ وہ بھی اسے لکھ لیں ، اس کا کیا حکم ہے ؟

الغش في الاختبارات والواجبات المدرسية

جواب

حامداََ و مصلیاََ۔۔۔

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاتہ۔۔۔

اما بعد۔۔۔

رسول اللہ نے معاملات کرنے کے لئے ایک اصولی قاعدہ بتلایا ہے : فرمایا: ’’جس نے ہمیں دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ اس کے تحت ہرقسم کا دھوکہ شامل ہے ، یعنی ہر وہ دھوکے والا فعل جو عوام میں عام ہے چاہے اس کا تعلق تعلیم سے ہو یا معاملات سے ، چاہے اس کا کا تعلق اوصاف نکاح سے ہو یا دیگر عناصر سے ۔ اس حدیث کا مفہوم بہت وسیع ہے ، لہٰذا ہر وہ شخص جو کوئی چیز غلط راستے سے حاصل کرے آپکے اس فرمان کے اندر داخل ہے ’’جس نے دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔

اوراس میں کوئی فرق نہیں چاہے یونیورسٹی اجازت دے یا نہ دے اگر اس میں دھوکہ ، فریب یا کسی کو اس طرح سے ظاہر کرنے والی صورت ہے کہ وہ جانتا ہے حالانکہ وہ نہیں جانتا ، تو یہ اسی دھوکے سے متعلق وعید میں ہے کیونکہ جو کوئی بھی کسی دوسرے کے واجبات میں سے کاپی کرتا ہے اور پھر پیش کردیتا ہے تو درحقیقت وہ یہ گواہی پیش کررہا ہوتا ہے کہ اس نے یہ مضمون بہترین انداز میں پڑھا ، چنانچہ اگر معاملہ ایسے ہے تو یہ جائز نہیں اگرچہ اجازت دے بھی دی جائے ۔

اوراسی کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ جو امتحانی پرچہ آؤٹ ہوجاتا ہے ، لہٰذا اگر کسی کو پتہ چل بھی جائے کہ سوالات طلباء کے پاس ہیں تو بھی اس کے لئے جائز نہیں کہ ان کی جانچ میں لگے اور ان کا مطالعہ کرے  لیکن وہ سوالات جو انٹرنیٹ اور دیگر ذرائع سے حاصل ہوتے ہیں لیکن کوئی حتمی بات نہیں ہوتی کہ یہی امتحان میں آئیں گے تو ان کا مطالعہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے وہ پچھلے سال کو گزشتہ سوالی پرچوں پر نظر ڈالے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ اس سال پھر سابقہ سوالات میں سے کچھ آجائے ۔

ہاں، اگر یہ یقین حاصل ہوچکا ہو کہ یہی وہ سوالات ہیں جو پرچے میں آئیں گے تو ان کا دیکھنا جائز نہیں کیونکہ یہی تو دھوکہ ہے لیکن اگر یہ احتمال ہے اگرچہ بہت تھوڑا ہی کیوں نہ ہو کہ یہ سوال پرچہ میں نہیں آئیں گے یعنی کچھ سوالات ہوں جن کے بارے میں یہ احتمال ہو کہ یہ ہرگز پرچے میں نہیں آئیں گے تو ان کا مطالعہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

 اس کی مثال وہی ہے کہ اگر گزشتہ پرچوں کے سوالات کا مطالعہ کرنا ہے کہ ممکن ہیں یہ پھر آجائیں تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ پچھلے سالوں کے سوال مت دیکھو کیونکہ دوبارہ آنے کا احتمال ہے ، بلکہ ان پر نظر دوڑانے میں کوئی حرج نہیں اور نہ ہی یہ دھوکہ ہے ۔ باقی اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے ۔

آپ کا بھائی

أ.د. خالد المصلح

5 / 3 / 1430

 


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں