×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / متفرق فتاوى جات / گناہِ صغیرہ پر ڈٹے رہنا

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:4091
- Aa +

صد قابلِ احترام۔ السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔۔۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا گناہِ صغیرہ پر ڈٹے رہنے سے وہ کبیرہ بن جاتے ہیں ؟

الإصرار على الصغائر

جواب

حامداََ و مصلیاََ۔۔۔

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاتہ۔۔۔

اما بعد۔۔۔

آپ کے سوال کے جواب میں ہم یہ کہتے ہیں کہ اہلِ علم کے اس میں دو اقوال ہیں کہ کیا گناہِ صغیرہ پر ڈٹے سے وہ کبیرہ بنتے ہیں یا نہیں ؟

پہلا قول : یہ ہے کہ گناہِ صغیرہ پر جمے رہنے سے وہ کبیرہ بن جاتے ہیں، یہی ابن عباس ؓ کا موقف ہے، اور یہی ان کے علاوہ اکثر صحابہ اور اہلِ علم کا بھی مذہب ہے۔

دوسرا قول: یہ ہے کہ گناہِ صغیرہ پر جمے رہنے سے وہ کبیرہ نہیں بنتے۔

اور ان میں ہر ایک کے پاس ایسے دلائل ہیں جو ان کے مذہب کو تقویت دیتے ہیں لیکن ان دونوں میں زیادہ واضح و راجح پہلا قول ہے ،جو ابن عباسؓ سے منقول ہے وہ فرماتے ہیں:  ’’گناہِ صغیرہ بار بار کرنے سے گناہِ صغیرہ نہیں رہتے بلکہ کبیرہ بن جاتے ہیں اور گناہِ کبیرہ توبہ و استغفار سے کبیرہ نہیں رہتے بلکہ معاف ہو جاتے ہیں‘‘۔  یہ حدیث کئی طرق سے مرفوعاً روایت کی گئی ہے لیکن ابن رجب اور باقی محدثین نے اسے ضعیف قرار دی ہے ۔

دوسری دلیل کے قائلین کا استدلال چند آیات قرآنی سے ہے جس میں صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کے درمیان فرق ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرو جن سے تمہیں روکا گیا ہے تو تمہاری چھوٹی برائیوں کا ہم خود کفارہ کر دیں گے اور تم کو ایک با عزت جگہ داخل کریں گے‘‘ ۔ (النساء:  ۳۱) ۔ اور جیسا کہ آپکا ارشاد گرامی ہے جو صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہؓ سے حدیث نمبر (۲۲۳) میں مروی ہے کہ:  ’’ پانچ نمازیں اور ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک ان کے مابین کئے گئے گناہوں کے لئے کفارہ ہیں جب تک کبیرہ گناہوں سے بچا جائے‘‘۔

باقی میرے نزدیک دوسرا قول ہی أقرب الی الصواب ہے، اور وہ یہ ہے کہ صغیرہ گناہ بار بار کرنے سے اور ان پر ڈٹے رہنے سے وہ کبیرہ نہیں بنتے، اب چاہے وہ تکرارِ گناہ عینِ صغائر میں سے ہو یا پھر جنسِ صغائر میں سے۔

باقی ابن عباسؓ وغیرہ سے جو منقول ہوا ہے وہ اس حالت پر محمول ہے جب وہ اصرار اللہ تعالیٰ کے حدود میں لا پرواہی اور کوتاہی اور اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں میں لا ابالی پن کے ساتھ اس پر دوام حاصل کرنا ہو، اور اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کی تعظیم نہ کرتا ہو، اور یہ بلا شک و شبہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے، البتہ اگر نفسانی خواہش غالب آ جائے اور اس کے ساتھ ساتھ خوفِ خدا ،عذاب اور باز پرس کا خوف بھی دامن گیر ہو تو پھر یہ کبیرہ گناہوں میں سے نہیں ہے۔

باقی اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔

آپ کا بھائی

أ.د.خالد المصلح

20/ 9 /1428 هـ


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں