×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / متفرق فتاوى جات / حکومتی وظائف

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:1370
- Aa +

اگر میں کسی کمپنی میں ماہانہ تنخواہ پر نوکری کرتا ہوں اور وہ میری انشورنس کروا لیتے ہیں اور میرے نام سے کرنسی (فنڈ) جاری کروا کر فائدہ اٹھاتے ہیں توکیا ایسی تنخواہ لینا میرے لیے جائزہو گا؟ شکریہ

سعودة الوظائف

جواب

حامداََ و مصلیاََ۔۔۔

اما بعد۔۔۔

اللہ کیتوفیق سے ہم آپ کے سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ

آج کی دنیا میں ممالک اقتصادی اعتبار سے جن چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں ان میں سے ایک بڑا چیلنج بے روزگاری کا عام ہونا ہے، جب بھی بے روزگاری کا گراف اوپر جاتا ہے خطرے کی گھنٹی بج جاتی ہے، اسی وجہ سے حکومتوں کی اولین ترجیح یہی ہوتی ہے کہ نوکریاں تلاش کرنے والوں اور کام کرنے کی صلاحیت رکھنے والوں کی خاطر بے روزگاری فیصداََ کم سے کم رکھی جائے اور اسی لئے ایسے نظام اور قوانین مرتب کیے جاتے ہیں جو اس مشکل کے حل کرنے میں کارآمد ہوتے ہیں، ایسا ہی ایک نظام یہ بھی ہے کی کمپنیوں میں ایک خاص شعبہ ہو جو ملک کے رہائشیوں کو نوکریاں فراہم کرے ، اور اس سے مقصود نوکریوں کی افزائش اور آنے والی کرنسی کو کم کرنا ہے۔

اور اسی کے تحت وزارۃ العمل کا بااعتماد علاقائی نظام ہے اوراس سے متوقع فوائد بھی کسی حد تک حاصل ہوئے ہیں، لہذا پرائیوٹ کمپنیوں نے ایسے کام فراہم کیے ہیں جو جوانوں کی صلاحیتوں کے طلبگار ہیں۔ ہاں، کچھ ایسے ادارے اور کمپنیاں ہیں جو جوانوں کیلئے ایک طے شدہ تنخواہ ان کو نوکری دے کر مقرر کرتی ہیں مگر ان سے کام کرنے کایا اپنی مہارت اور صلاحیت استعمال کرنے کا کوئی مطالبہ نہیں کرتیں۔ دراحقیقت یہ صورت بے روزگاری ختم نہیں کرتے بلکہ ایک بڑے ہی ہلکے سے پردے میں اسے چھپا دیتی ہے جو بہت جلد سب ظاہر کر دیتا ہے، لہذا ترقی کیلئے یہ ضروری ہے کہ اس نظام پر نظر ثانی کی  جائے۔

اور جہاں تک ایسی بناوٹی نوکریوں کی تنخواہ کا تعلق ہے تو اس کی دو حالتیں ہیں:۔

پہلی حالت: اگر یہ کمپنیاں مال بشری ذرائع کے فنڈ سے لیتی ہیں تو ایسی نوکری جائز نہیں اور نہ ہی ایسی تنخواہ لینا جائز ہے کیونکہ یہ تو بیت المال کا مال باطل طریقے سے حاصل کرنا ہے، کیونکہ بشری ذرائع کے فنڈ میں کچھ حصہ نوکری کرنے والے کی تنخواہ کا بھی ہوتا ہے کیونکہ وہ اہلیت رکھتا ہے اور اپنی صلاحیت لگاتا ہے اور اس وجہ سے بناوٹی نوکری کے ذریعے ادنی حد کی معاشی کفایت بھی پوری ہوتی ہے اور اس صورت میں اس شخص کے مقاصد ضائع کرنا لازم آتا ہے جس نے اپنی نوکری کی تنخواہ کا ایک جزء اسی میں کیا ہوتا ہے۔

دوسری حالت: اگر یہ کمپنیاں بشری ذرائع کے فنڈ سے اس پروگرام کی تنخواہوں کیلئے مال حاصل نہیں کرتی ہوں اور تمام تنخواہ کمپنی کے مالک کی طرف سے ہوتو اس حالت کے بارے میں تو میں تنخواہ کی حرمت کا کہنے کی جراء ت نہیں کرتا ۔کیونکہ کمپنی نوکریاں کرنے والوں کیلئے یہ تنخواہیں جاری کرنے پر راضی ہو گئی ہے تا کہ یہ کسی مصیبت، پریشانی یا کسی اور حالت میں مخصوص رقم کا مطالبہ کیے جانے کے خلل سے دور رہے، لیکن میں اس کو پھر بھی مکروہ سمجھتا ہوں کیونکہ اس میں ضمناََ شبہات موجود ہیں اور ساتھ میں فساد کا خدشہ ہے۔ واللہ اعلم

آپ کا بھائی

أ.د. خالد المصلح

12 / 11 / 1434هـ


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں