×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / متفرق فتاوى جات / کیا زمین اپنے ار گرد گردش کرتی ہے؟

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:3155
- Aa +

صد قابلِ احترام ! ہمارے امامِ مسجد اور بعض نمازیوں کا اکثر اس بات پر بحث مباحثہ ہوتا ہے، امامِ مسجد فرماتے ہیں کہ زمین کے اندر گردش نہیں بلکہ ٹھہراؤ ہے اس لئے کہ اس پر سب کا اجماع ہے، جبکہ نمازی حضرات کا یہ کہنا ہے کہ آج کل کی سائنسی تحقیق کی بناء پر یہ ثابت ہے کہ زمین ہم وقت گردش میں ہے، اس طرح وہ آپس میں اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں، لہٰذا ازارہِ کرم آپ اس حل طلب مسئلہ اور الجھن کو اپنے ناخن تدبیر سے سلجھائیں کہ کیا زمین گردش کرتی ہے یا نہیں ؟ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے هل الأرض تدور حول نفسها؟

وهل هذا ثابت بالكتاب والسنة؟

جواب

حامداََ و مصلیاََ۔۔۔

اما بعد۔۔۔

یہ محض ان کی اپنی ذاتی قیاس آرائی اور وہمی و خیالی تخمینہ ہے کہ زمین کے گردش نہ کرنے پر اہلِ علم کا اجماع ہے اس لئے کہ متقدمین کے صحیح اجماع سے ایسا کچھ بھی ثابت نہیں کہ زمین کے اندر گردش نہیں ہے، اور یہ بھی عین ممکن ہے کی جس نے زمین کے گردش نہ کرنے پر اہلِ علم کے اجماع کو دلیل بنا کر ذکر کیا ہے اس نے امام قرطبیؒ کی تفسیر میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد گرامی کی تفسیر کو دلیل بنایا ہو : ’’اور وہی ذات ہے جس نے یہ زمین پھیلائی اور اس میں دریا اور پہاڑ بنائے‘‘ ۔(الرعد: ۳)۔ جس کی تفسیر کرتے ہوئے امام قرطبیؒ فرماتے ہیں: ’’مسلمانوں اور اہلِ کتاب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ زمین میں ٹہراؤ اور پھیلاؤ ہے اور اگر زمین میں کہیں حرکت ہوتی بھی ہے تو وہ بھونچال اور زلزلہ کے ذریعہ سے ہوتی ہے‘‘۔

اور بالفرض اگر یہ بات درست بھی ہو کہ اہلِ علم کا اس پر اجماع ہے تب بھی یہ اجماع صحیح نہیں ہے اس لئے کہ یہ کسی بھی نصِ قرآنی سے ثابت نہیں ہے، باقی امام قرطبیؒ نے جو اپنے تفسیر میں لکھا ہے تو وہ اس وقت زمین کے متعلق لوگوں کے علوم و معارف کو دیکھ کر لکھا ہے اور اس کو کبھی بھی اجماع کا نام نہیں دیا جا سکتا، اس لئے کہ اجماع کے لئے سماع اور حس کا ہونا نا گزیر اور ضروری ہے جبکہ قرآنی و سنت میں ایسی کوئی سماعی یا حسی بات نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ زمین گردش نہیں کرتی جس سے یہ بات اچھی طرح سے آشکارا ہوتی ہے کہ امام قرطبیؒ جو اپنی تفسیر میں لکھا ہے وہ صرف لوگوں کے علوم و معارف اور اجتھاد اور ظن کو دیکھ کر لکھا ہے نہ کہ علم کامل اور یقین مستحکم کی بنیاد پر۔

اوراہل علم میں سے جن حضرات کا یہ کہنا ہے کہ زمین گردش نہیں کرتی ان کی دلیل ان نصوصِ قرآنیہ سے ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے زمین کو ٹھہراؤ سے موصوف کیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اللہ وہ ہے جس نے زمین کو تمہارے لئے ساکن بنایا ہے ‘‘۔ (غافر: ۶۴) ۔

لیکن یہ ایسی  لیل نہیں ہے جس میں زمین کے گردش کرنے کی نفی ہو رہی ہو بلکہ آیت مبارکہ میں تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر احسان جتلا رہے ہیں کہ زمین کے ٹھہراؤ اور نہ ہلنے کی وجہ سے اس پر تمہارے لئے زندگی گزارنا آسان ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین پر بڑے بڑے پہاڑ گاڑ دیے ہیں جن کی وجہ سے زمین نہیں ہلتی جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اور ہم نے زمین میں بڑے بڑے پہاڑوں کو گاڑ دیا ہے تاکہ وہ لوگوں پر ہلے نہ‘‘۔

اور زمین کا ساکن ہونا اس کی حرکت و گردش کے لئے مانع نہیں ہے،  اور انسانی زندگی میں اس کی کئی مثالیں ہیں جیسا کہ ایک شخص کسی ایسی کشتی میں سفر کرتا ہے جو اسے لے کر حرکت کرتی ہے اور وہ اس میں سکون سے بیٹھا ہوتا ہے جب دریا موجزن نہ ہو، اور اس کا یہ سکون و قرار کشتی کی حرکت اور نقل مکانی کے لئے مانع نہیں ہوتا، پس وہ اللہ جس نے ہر چیز کو کامل طریقہ بنایا بہت عظیم ذات ہے، لہٰذا اس کو دیکھ کر زمین کے ٹھہراؤ و حرکت و گردش کے درمیان کوئی تعارض نہیں۔

اسی طرح جن حضرات کا یہ کہنا ہے کہ زمین گردش نہیں کرتی تو ان کا استدلال اللہ کی کتاب میں ذکر کردہ سورج و چاند والی آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :’’اور سورج اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے، یہ سب اس ذات کا مقرر کیا ہوا نظام ہے جس کا اقتدار بھی کامل ہے جس کا علم بھی کامل ہے، اور چاند ہے کہ ہم نے اس کی منزلیں ناپ تول کر مقرر کردی ہیں، یہاں تک کہ وہ جب ان منزلوں کے دورے سے لوٹ کر آتا ہے تو کجھور کی پرانی ٹہنی کی طرح پتلا ہو کر رہ جاتا ہے، نہ تو سورج کی بہ مجال ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن سے آگے نکل سکتی ہے، اور یہ سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیںــ‘‘۔ (یٰس: ۳۸۔۴۰)  اس قسم کی جتنی بھی آیات ہیں ان میں زمین کے گردش کرنے کی نفی نہیں ہے بلکہ ان میں تو آفتاب و ماہتاب کی گردش کا اثبات ہے۔

لہٰذا پیچھے جو گزر چکا ہے اس کی بنیاد پہ صحیح اور بے غبار بات یہی ہے کہ قرآن و سنت اور اُمت کے سلفِ صالحین کے کلام سے سائنسی تحقیقی کے بعد ایسا کچھ بھی ثابت نہیں ہے کہ زمین گردش نہیں کرتی۔

باقی سب سے بڑی قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ زمین کے گردش کرنے اور نہ کرنے کا مسئلہ کوئی دینی مسئلہ نہیں ہے اس لئے کہ قرآن و سنت میں اس کے نفی و اثبات کے اعتبار سے کوئی ظاہری نص وارد نہیں ہوئی، لہٰذا اب زمین کے گردش کرنے کا اور نہ کرنے کا مرجع سائنسی تحقیقات ہی ہے۔

باقی اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔

آپ کا بھائی

أ.د خالد المصلح

5/11/1434هـ

 


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں