×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / متفرق فتاوى جات / باپ کا بیٹے کے مال میں حق

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2911
- Aa +

ہم سب بھائی کسی ایک کے گھر میں والد صاحب کے ساتھ ہر ہفتے اکٹھے ہوتے ہیں، اور والد صاحب کا ہمارے سے مطالبہ ہے کے انہیں ہر ہفتے کچھ رقم دیں جو کہ مختلف خاندانی امور میں صرف ہو، جیسا کہ ابھی پچھلے ہفتے ایک بھائی کے بیٹے کا انتقال ہوا تو ہم نے ین جمع شدہ پیسوں میں سے خرچہ کیا، تو سوال میرا یہ ہے کے کیا والدصاحب کے لیے یہ جائز ہے کے ہمیں ہفتہ وار پیسے دینے پرہمیں مجبورکریں؟

حق الأب في مال ابنه

جواب

حامداََومصلیاََ۔۔۔

امابعد۔۔۔

اللہ کیتوفیق سے ہم آپ کے سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ

آپ کے والد کیلئے جائز نہیں کہ اس طرح سے آپکو یہ رقم ادا کرنے پر مجبور کریں۔کیونکہ اموال میں اصل حرمت ہے،اور کسی قسم کا مال بھی اس کے مالک کی رضامندی کے بغیر جائز نہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (اے ایمان والو! باطل طریقے سے ایک دوسرے کے مال مت کھاؤ مگراس صورت میں کہ تمہارے درمیان باہمی رضامندی کے ساتھ تجارت ہو)۔(النساء:۲۹)۔  اور آپکا فرمان مبارک ہے:((تمہاری ایک دوسرے کی جانیں،تمہارے ایک دوسرے کے مال، اور تمہاری ایک دوسرے کی عزتیں حرام ہیں تم پرـــ)) ،یہ حدیث بخاری(۱۶۲۶) اور مسلم (۹۹) میں ابن عمر سے مروی ہے، اور بخاری نے اس حدیث کو ابن عباس کی روایت (۱۶۲۳)سے بھی نقل کیا ہے،اور مسلم نے حضرت جابر سے(۲۱۳۷)، اور یہی حدیث بخاری(۶۵) اور مسلم(۳۱۷۹)میں ابو بکرۃ سے بھی مروی ہے۔

اس بارے میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں اور اجماع بھی منعقد ہو چکا ہے، لیکن یہ ذہن میں رہے کہ مذکورہ اصول آپکے اس فرمان کے منافی اور اس کے معارض نہیں ہے۔ ((تم اور تمہارا مال تمہارے باپ کا ہے)) یہ حدیث متعدد طرق سے حضرت عائشہؓ  سے مروی ہے، ابن حبان نے اپنی صحیح میں ذکر کی ہے، اور ابن ماجہ میں (۲۲۸۲) حضرت جابر بن عبداللہؓ سے عمر بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کے طریق سے مروی ہے، اس کے علاوہ بھی صحابہ کی ایک جماعت نے اسے روایت کیا ہے،اور یہ حدیث صحیح ہے جو کہ اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ والد کا بیٹے کے مال میں خصوصی حق ہے۔ جمہورجس میں امام ابو حنیفہ،امام مالک،امام شافعی اور دیگر کا مذہب بھی یہی ہے کہ والد کو یہ حق حاصل ہے کے بقدر ضرورت بیٹے کے مال میں سے لے سکتا ہے، اور یہ مذہب حدیث اور حرمت کے دلائل میں تطبیق کر کے حاصل ہوا ہے۔ امام احمد کا مذہب یہ ہے کے والد کا بیٹے کا مال لینے میں ضرورت کی شرط نہیں ، مگر اتنا بھی نہیں لے گا جو بیٹے کو حرج میں ڈال دے اور اسے نقصان ہو اور نہ ہی وہ چیز لے گا جو بیٹے کی ضرورت کی ہو،جیسا کہ اس کیلئے یہ جائز نہیں کی اپنے بیٹے کے مال میں سے کچھ لے کر دوسرے بیٹے کو دے کیونکہ اس سے بعض بچوں کو بعض پر فضیلت دینا لازم آتا ہے۔

دونوں اقوال کو دیکھتے ہوئے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ کے والد کا آپ پر اس رقم کے مطالبے سے یہ لازم نہیں ہوتی کیونکہ جمہور کے قول کے مطابق اس صورت میں کوئی حاجت نہیں، اور دوسرے قول کو بھی لیں تو بھی والد اس مال کا مالک نہیں بنتا،ہاں آپ پر لازم ہے کہ اپنے بھائیوں اور خاندان کے دیگر افراد کو  تبرعاَ َعطاء کریں اگرچہ کوئی سبب نہ ہو۔ لیکن میری رائے یہ ہے کہ اگر یہ رقم دینا آپ کو حرج میں نہ ڈالے تو احسان اور نیکی کے طور پر اس کو اپنے اوپر لازم کر لیں۔ واللہ اعلم

آپ کا بھائی

خالد المصلح

08/04/1425هـ


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں