×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / متفرق فتاوى جات / کیا مکہ کو دارالکفر کہنا ممکن ہے؟

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:1912
- Aa +

کیا یہ ممکن ہے کہ مکہ کو دارالکفر کہا جائے اگر کفار یا مرتدین اس پر قبضہ کر لیں اور اپنا حکم جاری کر دیں؛ جیسا کہ قرامطہ وغیرہ؟

هل من الممكن تسمية مكة دار كفر؟

جواب

حامداََومصلیاََ۔۔۔

امابعد۔۔۔

اللہ کیتوفیق سے ہم آپ کے سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ

جب سے رسول اللہ نے مکہ فتح کیا ہے اللہ تعالی نے اسے شرف بخشا ہے، یہ دار الاسلام ہے اور اللہ تعالی نے اسے کفار کے ہاتھوں سے محفوظ فرمایا ہے، اور جہاں تک قرامطہ کا اس کی حرمت کو نقصان پہنچانا ہے اور اس میں فساد مچانا، حجاج کو قتل کرنا اور وہاں دفن کرنے کا تعلق ہے تو یہ ایک عارضی امر ہے جو کچھ دن رہا پھر اللہ تعالی نے حرم کو اس مصیبت سے نجات دلا دی اور مسلمانوں کو عافیت بخشی،مگر اس صورت میں بھی اس کا دارلاسلام ہونے کا وصف ختم نہیں ہوا۔

بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے، اگرچہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ یہ دارالاسلام ہی رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالی پتلی پنڈلی والے کے ہاتھوں کعبہ کو زمین بوس کرنے کا ارادہ فرما لے اور یہ ان حالات میں ہو گا جب زمین پر کوئی اللہ اللہ کہنے والا نہیں ہو گا جیسا کہ صحیح مسلم میں (۱۴۸) حضرت انسؓ کی مرفوع حدیث میں ہے: (قیامت کسی ایسے شخص پر قائم نہیں ہو گی جو اللہ اللہ کہتا ہو)۔ واللہ اعلم

آپ کا بھائی

خالد المصلح

10/02/1425هـ


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں