×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / روزه اور رمضان / نئے چاند کی تعیین میں آلات اور شرعی رؤیت

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2739
- Aa +

ٓلات یا حساب کے ذریعے چاند کی جانکاری شرعی رؤیت پر مقدم ہے یا نئے چاند کی تعیین کیلئے محض رؤیت ہی کا اعتبار ہے؟

المراصد والرؤية الشرعية في تحديد هلال الشهر

جواب

حامداََ و مصلیاََ۔۔۔

اما بعد۔۔۔

اللہ کیتوفیق سے ہم آپ کے سوال کے جواب میں کہتے ہیں:

آپ نے نئے چاند کی جانکاری کے بارے میں دو طریقوں کا ذکر کیا ہے: آلات اور حساب، آلات والا طریقہ رؤیت کے زیادہ قریب ہے بلکہ یہ ایک قسم کی رؤیت ہی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اس طریقے میں اعتماد جدید وسائل پر کیا جاتا ہے، لہذا ان وسائل کے استعمال میں چاند دیکھنے میں مدد حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں اور کوئی سبب مانع بھی نہیں پایا جارہا اور یہ فتوی متعدد  جہات سے صادر کیا گیا ہے جن میں کبار علماء اور فقہی لجنات شامل ہیں اور مسألہ ہے بھی واضح۔

بعض لوگوں نے ایک فقہی اشکال ذکر کیا ہے کہ اگر چاند آلات میں تو نظر آجائے لیکن حقیقت میں انسانی آنکھ سے نظر نہ آئے تو کیا آلات کی رؤیت کا اعتبار ہو گا؟

فقہاء میں سے بعض کا تو نظریہ اس بارے میں یہ ہے کہ ان آلات سے رؤیت کی نفی کا تو فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اثبات کا نہیں، اور بعض فقہاء نفی اور اثبات دونوں میں ان کا اعتبار کرتے ہیں، فقہی اعتبار سے یہ مسئلہ ہے بھی اسی کے قریب اور اس کی متعدد توجیہات بھی ہیں، راجح بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان آلات پر اعتماد کرنے میں کوئی حرج نہیں اور اسی کے مطابق فتوی بھی متعدد اطراف سے جاری کیا گیا ہے جیسا کے پہلے ذکر کیا۔

اور جہاں تک حساب کا تعلق ہے تو یہ ایک بڑا ہی مختلف معاملہ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل علم میں سے بعض نے حساب کے عدم اعتبار پر اجماع نقل کیا ہے، بلکہ مالکیہ میں سے تو بعض فقہاء نے یہ کہا ہے کہ اگر نئے مہینے کا ثبوت حساب کے طریق سے ہو تو لوگوں پر لازم نہیں کہ اس خبر یا اس اعلان کے مطابق چلیں، اور اسی قول پر آج کے زمانے کے جمہور فقہاء کا اعتماد ہے اور یہی قول مختار ہے۔

اس مسئلہ میں راجح یہ معلوم ہوتا ہے کہ حساب کا رؤیت کی نفی میں تو اعتبار ہے اثبات میں نہیں، اس صورت میں جب لوگ چاند کو دیکھ بھی سکیں اور رؤیت پر عمل بھی کریں، اور اگر رؤیت بالکل معطل ہو کر رہ جائے اور کچھ نظر نہ آئے جیسا کہ آج کل سال کے اکثر مہینوں میں ہوتا ہے تو اس صورت میں حساب کے مطابق عمل کرنا ایک امر ظنی پر عمل کرنا ہے اور ظن پر غالب بھی اس کی صحت ہی ہے تو اس حال میں اس کا اعتبار کرنے اور اس پر اعتماد کرنے میں کوئی حرج نہیں اور یہ اس سے بہتر ہے کہ لوگ عدم پر عمل کریں مطلب یہ کہ کسی رؤیت کا وجود ہی نہیں تو رؤیت کے نہ ہونے کی صورت میں اقرب یہی ہے کہ حساب پر اعتماد کر لیا جائے۔

اور جہاں تک رمضان کے ثبوت اور عدم ثبوت کی بات ہے تو اقرب الاقوال اختیار کرنے کے اعتبار سے یہی ہے کہ حساب کا اس صورت میں نفی رؤیت میں تو اعتبار کیا جائے اثبات رؤیت میں نہیں اور یہ مسئلہ بھی قریب قریب ہی ہے، نہ اس میں آلات کے ساتھ اتصال کی بات ہے، نہ رؤیت کی اور نہ ہی حساب کی، یہ ایسی صورت کا مسئلہ نہیں کی اس میں عام رواج کو دیکھا جائے یا کسی ایک فقیہ کے قول کو لیا جائے کیونکہ یہ معاملہ حقیقت کے اعتبار سے مقرر ہے تو لوگ اپنے ائمہ کے تابع ہیں اور اس کے جو ان کے ملک میں اعلان کیا جائے۔ [روزہ اس دن ہے جب لوگ روزہ رکھیں، اور فطر اس دن ہے جس دن لوگ فطر کریں]


سب سے زیادہ دیکھا گیا

ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں