×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / روزه اور رمضان / کیا رمضان میں نفسیاتی بیماری روزہ نہ رکھنے کو مباح کرتی ہے؟

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2096
- Aa +

کیا رمضان المبارک میں نفسیاتی بیماری روزہ نہ رکھنے کو مباح کرتی ہے؟

هل المرض النفسي يبيح الفطر في رمضان؟

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

بتوفیق الٰہی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:

اس نفسیاتی بیماری کے کئی درجات ہوتے ہیں:  جیسا کہ ٹینشن ، ڈیپریشن اور وساوس یعنی وہم وغیرہ ، یہ سب اس کے درجات ہیں لیکن یہ سب درجات کسی ایک درجہ پر نہیں ہے ۔ پس انسان اسے اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان اس کا اندازہ کرتا ہے اور کبھی کبھی ایک ماہرنفسیات طبیب یا اس کے اردگرد کے لوگ بھی اس کی تشخیص میں اس کی معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ روزہ رکھ سکتا ہے یا نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر وہ روزہ رکھنے پر قادر ہے تو یہ بیماری اس کے لئے روزہ توڑنے کو مباح قراردیتی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’پس تم میں سے جو بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں اتنی تعداد پوری کرلے‘‘ (البقرۃ:۱۸۴) اور یہاں بیمار کو وہ تمام بیماری کے انواع شامل ہیں جو اس کے روزہ پر اثر انداز ہوتے ہیں ، لہٰذا آیتِ مبارکہ میں مذکورہ بیماری کو اہلِ علم نے مطلق چھوڑے رکھا ہے اگرچہ اس کا روزہ کے ساتھ تعلق بھی نہ ہو ، اور اگر مرض مثال کے طور پر کسی انگلی میں درد کی طرح ہو کہ نہ تو وہ روزہ پر اثر اندازہوتا ہو اور نہ روزہ سے وہ مرض گھٹتا اور بڑھتا ہو اور نہ اس میں کوئی زائد مشقت ہو ان سب کے باجود بھی اہلِ علم اس کے لئے روزہ افطار کرنے کی اجازت دیتے ہیں اس لئے کہ وہ اس حالت میں بیمار ہے ؛ اس لئے کہ بیماری میں مشقت کا گمان پایا جاتا ہے اور حکم کے ثابت ہونے میں ظنِ غالب کافی ہوتا ہے ، جیسا کہ ایک قاعدہ ہے: ’’ظنِ غالب یقین کے قائم مقام ہوتا ہے‘‘۔ یہی بعض اہل علم نے کہا ہے ۔

اور جمہور کے نزدیک جس مرض میں افطار کرنا جائز ہے تو یہ وہ مرض ہے جو مریض کے روزہ پر اثر انداز ہوتا ہے ، اور مرض کا روزہ پر اثر انداز ہونا تین طرح سے ہے:

 ایک یہ کہ مرض عام طور پر مشقتِ زائدہ کا سبب بنے، لہٰذا روزہ مرض پر بایں صورت اثر انداز ہوتا ہے کہ اس کا مرض بڑھ کر اس کے لئے مشقت بڑھنے کا سبب بنے ۔

 دوسرا یہ کہ روزہ رکھنے کی وجہ سے اس کی شفاء میں تاخیر واقع ہوتی ہو ، مطلب یہ کہ اگر وہ روزہ رکھے تو اس کی شفاء ایک ماہ تک مؤخر ہوجائے جبکہ روزہ نہ رکھنے کی صورت میں وہ تین چار دنوں یا ہفتہ میں صحتیاب ہوسکتا ہے لہٰذا اگر روزہ رکھنے کی وجہ سے اس کی شفا ء میں تاخیر ہوتی ہو تواس حالت میں اس کے لئے افطار کرنا جائز ہے ۔

 تیسرا یہ کہ روزہ رکھنے سے مرض نہ بڑھتا ہو تو اس صورت میں اس کے لئے ماہِ رمضان میں روزہ نہ رکھنا جائز ہے اور اگر وروزہ رکھنے سے اس کے مرض بڑھنے کا اندیشہ ہو تو پھر اس کو روزہ رکھنے میں رخصت دی جائے گی ، اور ایسی حالت میں روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں ہے ، اور ہوسکتا ہے کہ وہ اللہ کے رسولکے اس ارشاد گرامی کے تحت بھی داخل ہو: ’’سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں ہے‘‘۔ اس لئے کہ سفر میں ایک گونہ مشقت ہوتی ہے عین اسی طرح مرض میں بھی مشقت ہوتی ہے لہٰذا اس مشقت کی وجہ سے اس میں رخصت دی گئی ہے۔  


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں