×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / روزه اور رمضان / مرنے کے بعد مرض کی وجہ سے میت پر باقی ماندہ روزوں کا حکم

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2653
- Aa +

میرے والدِ ماجد کچھ عرصہ پہلے وفات پاچکے ہیں ، اور بیماری کی وجہ سے ماہِ رمضان کے روزوں میں سے کئی ہفتے انہوں نے روزے نہیں رکھے اور مسلسل مرض کی وجہ سے ان کی قضاء بھی نہیں کی تو اس صورت میں ہم پر کیا کفارہ واجب ہوتا ہے؟

مات وعليه صوم بسبب المرض

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:

ہماری اس بہن کا سوال اپنے والد کی وفات کے بعد ان کی فرمانبرداری کی نشانی ہے ، لہٰذا والد کی اصل فرمانبرداری یہی ہے کہ ان کے متعلق حقوق اللہ اور حقوقِ عباد کی ادائیگی کے بارے میں چھان بین اور جانچ پڑتال کی جائے اور ان کو پورا ادا کرنے میں تگ ودَو اور دوڑ دھوپ کی جائے ، جیسا کہ ایک آدمی خدمتِ اقدس میں حاضرہوا اوربعض روایات میں ہے کہ ایک عورت خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر عرض پرداز ہوئی : ’’اے اللہ کے رسول! میری ماں نے منت مانی تھی کہ وہ حج ادا کرے گی لیکن منت پوری کرنے سے پہلے وہ پیوندِ خاک ہوگئی لہٰذا اب میں ان کی طرف سے حج ادا کرسکتی ہوں ؟ اللہ کے رسولنے ارشاد فرمایا: جی ہاں ، اس کی طرف سے حج ادا کرلو اللہ تعالیٰ اس کی قضاء کو پورا کرنے والے ہیں‘‘۔ یہ حدیث اس بات پر دال ہے کہ باپ کی اصل فرمانبرداری یہی ہے کہ ان کے اوپر لوگوں کے واجبہ حقوق کو تلاش کیا جائے اور ان کو پورا پورا اد ا کیا جائے ۔

اور جہاں تک اس خاص مسئلہ کا تعلق ہے ، اور وہ یہ کہ جو شخص مستقل بیمار رہا حتی کے مر گیا، تو اب اگر اس کی بیماری ایسی تھی کہ صحتیاب ہونے کی امید تھی اس صورت میں اس پر قضاء نہیں ہے نہ اس پر نہ بعد میں اس کے ورثاء پر ، نبی نے فرمایا جو کہ حضرت عائشہؓ کی حدیث بخاری میں مروی ہے: ((جو اس حالت میں مر گیا کہ اس پر کچھ روزے باقی تھے تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے)) یہ حدیث اس صورت کے بارے میں ہے کہ اگر اس پر روزے واجب ہوئے اور اس کے ذمہ میں ثابت ہوئے یا تو اداء کے اعتبار سے یا قضاء کے اعتبار سے، جبکہ پیچھے مذکورہ صورت میں صرف قضاء کے اعتبار سے ہی واجب ہوئے اور اس کو اتنا وقت نہ مل سکا جس میں وہ قضاء کرتا لہذا وہ بریء الذمہ ہو گیا، اور اس پر اہل علم کی ایک جماعت نے اتفاق ذکر کیا ہے کہ اگر مرض طول پکڑ جائے اور ہو بھی ایسا کہ صحتیابی کی امید ہو لیکن قضاء نہ کر سکا تو اس کے بیٹے پر کوئی قضاء نہیں اور نہ ہی یہ پیچھے ذکر کی گئی حدیث میں داخل ہو گا ۔

اور اگر مرض ایسا ہو کہ صحتیابی کی کوئی امید نہیں اور مرض جاری رہا یہاں تک کہ وہ مر گیا، نہ اس نے کھانا کھلایا نہ قضاء کی تو اس صورت میں اس کے ولی پر واجب ہے کہ اگر وہ قدرت رکھتا ہو تو اس کے ترکہ میں سے جو روزے اس پر تھے ان کا فدیہ نکالے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ((اور جو طاقت رکھتے ہیں ان پر فدیہ ہے، مسکین کو کھانا کھلانا)) [البقرہ:۱۸۴]

اور جہاں تک ولی کا میت کی طرف سے روزے رکھنے کا تعلق ہے تو اگر روزے نذر کے مانے گئے ہوں اور اس نے مؤخر کر دئے یا اس پر قضاء تھی مگر اس نے قضاء نہیں کئے یہاں تک کے اسے موت آگئی تو اس حالت میں اس کی طرف سے ولی روزے رکھے گا، لیکن باقی دو صورتوں میں وہ یہ کہ اگر اس پر کچھ نہ ہو، یا اس پر اپنی زندگی میں کھانا کھلانا واجب تھا جس کے بارے میں اللہ تعالی نے فرما یا: ((اور جو طاقت رکھتے ہیں ان پر فدیہ ہے، مسکین کو کھانا کھلانا)) [البقرہ:۱۸۴]

تو اس دوسری حالت میں صرف کھانا کھلانا ہی لازم ہے اور قضاء مشروع نہیں کیونکہ اس پر روزے ثابت ہی نہیں ہوئے تھے بلکہ اس کے ذمہ میں روزے کا بدل ثابت ہوا تھا جو کہ کھانا کھلانا ہے تو اب یہی لازم ہے کہ ترکہ میں سے اتنی مقدار نکال دے، اور اگر اس نے کوئی مال نہیں چھوڑا تو اب وہ عاجز ہے اس میں استطاعت نہیں جبکہ واجبات استطاعت کی بنیاد پر ثابت ہوتے ہیں، تو اب اگر استطاعت نہیں تو کچھ بھی اس پر واجب نہیں۔


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں