×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / طلاق / طلاق شدہ کی عدت اور شوہر کی وفاۃ کیوجہ سے عدت کے درمیان کیا فرق ہے؟

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:4411
- Aa +

طلاق شدہ کی عدت اور شوہر کی وفاۃ کیوجہ سے عدت کے درمیان کیا فرق ہے؟

ما الفارق بين المعتدة من وفاة زوجها وبين المطلقة؟

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:

جس عورت کا شوہر مر جائے اس پر واجب ہے کہ جس گھر میں اس کا شوہر فوت ہوا ہے اور وہ وہاں رہتی تھی وہیں پر قیام پذیر رہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:((تم میں سے جو وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ چار مہینے اور دس دن خود کو روکے رکھیں اور جب وہ اپنی مدت پوری کر چکیں تو پھر تم پر کوئی حرج نہیں وہ صحیح طریقے سے اپنے ساتھ جو بھی کریں، تم جو عمل بھی کرتے ہو اللہ اسے جانتا ہے)) [البقرہ:۲۳۴

اور جہاں تک اس کا اپنی ضروریات کیلئے گھر سے نکلنے کی بات ہے تو اس کی اسے اجازت ہے، اللہ تعالی نے اسے جو حکم دیا ہے وہ یہ ہے کہ گھر میں اقامت اختیار کرے اور کہیں اور نہ جائے، کوئی ایسی بات حکم میں موجود نہیں جو اسے حاجت کی وجہ سے بھی نکلنے سے مانع ہو بلکہ سنت سے تو ظاہراََ مصلحت و حاجت کیلئے نکلنے کی اجازت معلوم ہوتی ہے، ابو داؤد ، ترمذی اور ابن ماجہ نے زینب بنت کعب بن عجرہ عن الفریعہ بنت مالک جو کے ابو سعید الخدری ؓ کی بہن ہیں سے روایت کیا ہے کہ وہ نبی کے پاس آئیں یہ پوچھنے کیلئے کہ وہ اپنے والدین کے گھر چلی جائیں کیونکہ ان کے شوہر کچھ غلاموں کے پیچھے گئے تو انہوں نے ان کو قتل کر دیا، تو آپ نے فرمایا: ((اپنے گھر میں ہی رہو یہاں تک کہ وقت پورا ہو جائے)) اور اس وقت آپنے سؤال کیلئے آنے کی وجہ سے کچھ نہیں کہا، اسی طرح سے عبد الرزاق کی روایت کردہ حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جو کہ مجاہد سے مرسلاََ مروی ہے ، کہتے ہیں: احد کے دن کچھ لوگ شہید ہو گئے تو ان کی بیویاں رسول اللہ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: ہمیں رات کے وقت وحشت ہوتی ہے تو ہم کسی ایک کے گھر رات اکٹھے گزار لیتی ہیں پھر جب صبح ہوتی ہے تو اپنے اپنے گھر واپس چلی جاتی ہیں، تو نبینے فرمایا: ((جتنی دیر چاہو کسی ایک کے گھر بات چیت کرو، اور جب نیند کرنا چاہو تو تم میں سے ہر عورت اپنے گھر آ جائے)) تو یہ بھی اسی بات پر دلالت کر رہا ہے کہ حاجت کیلئے نکلنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اصحاب مذاہب کے جمہور علماء کا یہی قول ہے۔

اور جہاں تک مطلقہ کی بات ہے تو صحیح مسلم میں (۱۴۸۳) ابو الزبیر عن جابر کے طریق سے حدیث مروی ہے فرماتے ہیں: میری خالہ کو طلاق ہو گئی تو انہوں نے اپنے کھجور کے باغ سے پھل توڑنا چاہا، ایک آدمی نے انہیں نکلنے سے ڈانٹ کر روکا تو وہ نبی کے پاس آئیں آپ نے فرمایا: ((کیوں نہیں! اپنے باغ سے کھجور اتارو، ممکن ہے کہ تم اس میں سے صدقہ کر دو یا کوئی اور نیکی کر دو))، تو نبی نے نکلنے کی انہیں اجازت دے دی جبکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: ((انہیں ان کے گھروں سے مت نکالو اور نہ ہی وہ خود نکلیں))[الطلاق:۱] لہذا روایت مذکورہ ضرورت کیلئے گھر سے نکلنے پر دلالت کر رہی ہے، اسی وجہ سے بعض علماء نے اس عورت کو بھی نکلنے کی اجازت دی ہے جس کا شوہر فوت ہو گیا ہو، طلاق شدہ پر قیاس کرتے ہوئے۔

لہذا یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ متوفی عنہا زوجہا اور مطلقہ میں کوئی فرق نہیں ہے وہ گھر سے منتقل نہیں ہو سکتی، اس گھر سے جس میں اس کا شوہر مرا ہے اور وہ وہاں سکونت پذیر تھی یا جہاں اسے طلاق ہوئی ہے، لیکن حاجت اور مصلحت کیلئے نکلنا جائز ہے، علماء کی ایک جماعت نے صرف دن کے وقت نکلنے کی اجازت دی ہے جبکہ ظاہر یہی ہے کہ وہ حاجت کیلئے دن ہو یا رات نکل سکتی ہے، واللہ اعلم


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں