×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / اصول فقہ / ابن عمر ؓ کے افعال کو حجت ماننا

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2913
- Aa +

میرا سؤال حضرت ابن عمر ؓ کے افعال کو حجت ماننے کے بارے میں ہے، اور یہ اس صورت میں جب کوئی سنت میں سے دلیل مخالف بھی موجود نہ ہو مثال کے طور پر عیدین اور جنازہ کے موقع پر تکبیر کہتے وقت ہاتھ اٹھانا، اب اگر کوئی دلیل مخالف ہے اس بارے میں تو برائے مہربانی ہمیں بھی اس سے مطلع فرمائیں؟اور کیا کچھ ایسی متعین شرائط ہیں جن کا کسی صحابی کے فعل کو بطور دلیل لیتے وقت مد نظر رکھنا ضروری ہے؟

حجية أفعال ابن عمر رضي الله عنه

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

ابن عمرؓ کے افعال کو بطور حجت ماننے کا مسئلہ دراصل صحابی کے قول کو حجت ماننے کے مسئلہ سے نکلا فروعی مسئلہ ہے، اور محدثین، فقہاء اور اصولیین میں سے بہت سے علماء نے اس مسئلہ پر بہت سی بحثیں کی ہیں، بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے خاص طور پر اس بارے میں مؤلفات بھی لکھیں ہیں، بہرحال خلاصہ کلام یہ ہے کہ قول صحابی کے کچھ احوال ہوتے ہیں:

پہلی حالت: یہ کہ قول صحابی کتاب و سنت میں موجود نص کے مخالف ہو تو اس صورت میں یہ کوئی حجت نہیں، امام شافعی ؒ کا کتاب الام {۷/۲۸۰} میں کہنا ہے: جب تک کتاب اور سنت موجود ہوں تو ان کے اتباع کے علاوہ ہر طرح کا عذر ناقابل سماعت ہے، اور اگر یہ موجود نہ ہوں تو ہم صحابہ کے اقوال یا ان میں سے کسی ایک کے قول کو لیں گے۔

مجموع الفتاوی {۱/۲۸۴} میں شیخ الاسلام لکھتے ہیں: جب بھی سنت اس کے خلاف دلالت کر رہی ہو تو حجت رسول اللہ کی سنت ہی ہو گی نہ کہ وہ جس کہ یہ مخالفت کر رہی ہے، اہل علم کے ہاں اس میں کوئی شک نہیں۔

دوسری صورت: قول صحابی مشہور ہو اور اس کا انکار نہ کیا گیا ہو تو جمہور اہل علم جن میں محدثین ، فقہاء اور اصولیین شامل ہیں ان کے ہاں یہ حجت ہے۔

مجموع الفتاوی {۱/۲۸۴} میں شیخ الاسلامؒ نے تحریر کیا ہے: اگر یہ مشہور ہو جائے اور اس کا انکار نہ کریں تو یہ اس قول کو برقرار رکھنا ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ اجماع اقراری ہے، اگر یہ معلوم ہو کہ انہوں نے اقرار کیا اور کسی ایک نے بھی اس کا انکار نہیں کیا، کیونکہ صحابی باطل کا اقرار نہیں کر سکتے۔

تیسری صورت: یہ کہ قول صحابی مشہور نہ ہوا ہو اور ساتھ میں کسی دوسرے صحابی سے اس کے خلاف بھی کوئی قول معلوم نہ ہو، تو اس حالت کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے، سب سے اصح قول تو یہ ہے کہ یہ بھی حجت ہے، اور جمہور نے اسی کو اختیار کیا ہے جن میں حنفیہ مالکیہ اور حنابلہ کے اہل حدیث اور اہل فقہ شامل ہیں اور امام شافعی کا بھی ایک قول یہی ہے۔

چوتھی صورت: قول صحابی ایسا ہو جس کی دوسرے صحابہ نے مخالفت کی ہو، تو صحابہ میں سے کسی کا قول دوسرے پر حجت نہیں بن سکتا اس بات پر اہل علم کا اتفاق ہے۔ اور جو ان کے بعد والے ہیں تو ان کے اقوال میں ترجیح والا پہلو اپنایا جائے گا اور بالجملہ ان کے اقوال کی حجیت ساقط نہیں ہو سکتی، واجب تو یہی ہے کہ جس میں ان کا اختلاف ہو جائے اس کو کتاب اور سنت کی طرف لوٹایا جائے۔

اور جو آپ نے ابن عمرؓ کا عیدین اور جنازے کی نماز میں تکبیر کے وقت ہاتھ اٹھانے کا پوچھا ہے تو یہ سؤال پہلی حالت اور چوتھی حالت کے درمیان متردد ہے۔

جہاں تک اس کا پہلی حالت میں اندراج کا تعلق ہے تو بعض اہل علم جو ہاتھ اٹھانے کا نہیں کہتے انہوں نے استدلال کیا ہے دارقطنی کی روایت سے جو کہ ابو ہریرہ ؓ اور ابن عباسؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں: رسول اللہ جب نماز جنازہ پڑھتے تو پہلی تکبیر کے وقت ہاتھ اٹھاتے ، ابن عباس ؓ کی روایت میں یہ زیادتی بھی ہے: بھر دوبارہ ایسا نہ کرتے۔

اور جو اس صورت میں رفع الیدین کے قائل ہیں وہ جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ دونوں احادیث ضعیف ہیں، لہذا اس طرح سے یہ پہلی حالت سے خارج ہو جاتی ہیں، اور جہاں تک اس کا چوتھی حالت میں مندرج ہونے کا تعلق ہے تو وہ اس میں صحابہ ؓ کے اختلاف کی وجہ سے ہے، ابن مسعود اور ابن عباس ؓ تکبیراولی کے سوا ہاتھ اٹھانے کے قائل نہیں جیسا کے ابن حزم نے ذکر کیا ہے۔

یہاں ایک مسئلہ ہے جس کا تعلق ابن عمر ؓ کے افعال کی حجیت سے ہی ہے اوراس پر خبردار کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں، چونکہ انہیں کے بارے میں سؤال بھی پوچھا گیا ہے، مسئلہ یہ ہے کہ ابن عمر ؓ کا بعض اجتہادات میں تفرد ہے جس میں انہوں نے کبار صحابہ کی مخالفت کی ہے جیسا کہ ابن عمر ؓ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ وضو کرتے وقت آنکھوں میں بھی پانی ڈالتے تھے، اسی طرح وہ ان راستوں پر چلنا پسند کرتے تھے جہاں رسول اللہ چلے ہوں اور جہاں آپ نے پڑاؤ ڈالا وہاں ٹھرنا پسند کرتے تھے، اسی طرح جہاں آپکو وضو کرتے دیکھا وہاں وہ بھی وضو کیا کرتے تھے۔ تو ایسی چیزیں چوتھی حالت کے تحت مندرج ہوتی ہیں جن کو جمہور نے پسند نہیں کیا، کیونکہ کبار صحابہ نے ان تمام افعال کو چھوڑا اور ان پر عمل نہیں کیا، واللہ اعلم۔


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں