×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / اصول فقہ / ایک عام آدمی علماء کے اقوال کے درمیان کیسے ترجیح قائم کرے؟

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:3166
- Aa +

ایک عام آدمی ایسے معاملے میں جس میں علماء کا اختلاف ہو اور ترجیح مشکل ہو توکیا کرے، مثلاََ شیخ بن باز کچھ کہتے ہیں اور مختلف دلائل بھی اس بارے میں پیش کرتے ہیں جبکہ امام البانی ؒ اس کے بالکل برعکس فتوی دیتے ہیں اور اس بارے میں وہ اپنے دلائل دیتے ہیں، تو کیا اب ایسے معاملے میں انسان احتیاط والا قول لے یا آسانی والا؟

كيف يرجح العامي بين أقوال العلماء

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

 اس بارے میں علماء کے اقوال متعدد ہیں، اور اختلاف ہوا بھی وہاں ہے جہاں کسی بھی وجہ سے ترجیح قائم کرنا مشکل ہو، جیسے دلائل کو دیکھتے ہوئے یا علم تقوی یا دیگر امور کے اعتبار سے مفتی کے حالات دیکھتے ہوئے، حاصل کلام یہ ہے کہ اس مسئلہ میں علماء کے تین اقوال ہیں:

پہلاقول: سب سے زیادہ شدت والا قول لے گا۔

دوسرا قول: سب سے زیادہ سہولت والا قول لے گا۔

تیسرا قول:دو یا دو سے زیادہ اقوال میں اختیار ہے۔

جو مجھے راجح معلوم ہو رہا ہے وہ یہ کہ اگر حالت ایسی ہو جیسے آپ نے ذکر کیا تو عامی آدمی کیلئے یہ ہے کہ وہ اقوال میں سے سب سے زیادہ سہولت والا قول اختیار کرے، کیونکہ شریعت کی بنیاد سہولت پر ہی ہے، فرمان باری تعالی ہے: ((اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے، اور وہ تمہارے ساتھ سختی نہیں چاہتا)) {البقرہ: ۱۸۵} اور نبی کا فرمان ہے: ((مجھے ایسی شریعت دے کر بھیجا گیا ہے جو سیدھی اور آسان ہے)) جیسا کہ مسند احمد میں حضرت عائشہؓ کی حدیث میں آیا ہے ایسی سند کے ساتھ جس میں کوئی حرج نہیں۔

مسند میں ہی صحیح سند کے ساتھ بھی اعرابی والی حدیث موجود ہے جس کا نام نہیں ذکر کیا گیا کہ اس نے نبی کو کہتے سنا: ((تمہارا بہترین دین سب سے آسانی والا ہے))، اور یہ کہ نبی کو جب بھی دو امور میں اختیار دیا جاتا تو ان میں سے آسانی والا اختیار کرتے جیسا کہ صحیحین میں عائشہؓ کی حدیث میں وارد ہوا ہے۔

لیکن ملحوظ یہ رکھنا چاہئیے کہ یہ اس صورت میں ہے جب دو مختلف اقوال سامنے ہوں اور ترجیح قائم نہ کی جا سکتی ہو، تاکہ صورتحال میں تتبع رخص نہ پیدا ہو جائے جس کے عدم جواز پر علماء کا اجماع ہے، بلکہ واجب یہ ہے کہ حسب امکان حق کی اتباع ہو، واللہ اعلم۔

آپ کا بھائی/

خالد بن عبد الله المصلح

04/09/1424هـ


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں