×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / آداب / خاندان کا سربراہ اعتکاف میں بیٹھ گیا اور بچوں کو سڑکوں پر بٹھکنے چھوڑ دیا

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2298
- Aa +

بعض خاندان جو کہ مکہ مکرمہ میں اعتکاف کرتیں ہیں، یہ لوگ حرم چلے جاتے ہیں تاکہ وہاں صیام و قیام کریں اور اپنے بچے بچیوں کو جو کہ اب بلوغت کے قریب ہیں بازاروں میں گھومتے پھرتے چھوڑ جاتے ہیں جس سے ان کا مذاق بنتا ہے اور لوگ چھیڑ چھاڑ کرتے پھرتے ہیں، اس بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟

اعتكف رب الآسرة وترك أبناءه يتسكعون في الطرقات

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

رمضان میں خیر کے بہت سے دروازے ہیں جن میں عبادت و اطاعت چاہے واجب ہو یا مستحب یہ سب شامل ہے جیسے نماز، زکاۃ اور عمرہ وغیرہ، اور ان عبادات کے مختلف درجات اور مراتب ہیں اور ان درجات سے نا آشنائی، ان مراتب کو نہ پہچاننا انسان کیلئے بہت سارے اجر و ثواب کے فوت ہو جانے کا سبب بن جاتی ہے، ایک بندے کیلئے یہ جائز نہیں کہ مستحبات میں مشغول ہو کر واجبات کو چھوڑ بیٹھے؛ بخاری نے عطاء بن یسار عن ابی ہریرہؓ کے طریق سے روایت ذکر کی ہے(۶۵۰۲) کہ آپ نے فرمایا: ((اللہ تعالی فرماتے ہیں:اور بندہ میرے سے قریب سب سے زیادہ اسی چیز سے ہوتا ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے، اور بندہ نوافل کے ذریعے میرے قریب ہوتا چلا جاتا ہے حتی کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔۔۔)) تو ہمارے بعض بھائی اپنے بچوں بچیوں کے ساتھ جو کرتے ہیں یہ بالکل نا مناسب ہے، خود رمضان کے مہینے میں طاعات میں مشغولیت اختیار کر لینا، عمرہ اعتکاف اور قیام اللیل یا دنیاوی اعتبار سے راتوں کو جاگنے کی مصروفیت اور دیگر امور یہ سب اللہ تعالی کی طرف سے اولاد کی تربیت کرنے کے واجب میں خلل ڈالنا اور اس کو ضائع کرنا ہے، اللہ کا فرمان ہے: ((اے ایمان والو اپنے آپ کو اور اپنی اہل کو آگ سے بچاؤ، ایسی آگ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں اس پر ایسے فرشتے کھڑے ہوں گے جو بڑے سخت اور قوی ہیں جو اللہ نے انہیں حکم دیا ہے اس کی خلاف ورزی نہیں کرتے اور جو امر کیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں)) [التحریم:۶]

لہذا ان سرپرستوں کیلئے یہ جائز نہیں ہے کہ اپنے واجب میں خلل ڈالیں اور مستحب عبادات میں مشغولیت کا عذر پیش کریں، یہ سنت پر تو عمل کر رہے ہیں مگر فرض کو چھوڑ رہے ہیں، ہمارے نبی محمد کی زندگی پر نظر رکھنے والا یہ جانتا ہے کہ آپ رمضان کے آخری عشرے میں اپنی مشغولیت اور شدت اجتہاد کے باوجود بھی اپنے اہل کو نہیں بھولتے تھے، انہیں نماز کیلئے اٹھاتے تھے، مسلم میں اسود بن یزید کے طریق سے مروی ہے کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: رسول اللہ آخری عشرے میں (عبادات میں) اتنی محنت کرتے تھے جتنی عام دنوں میں نہیں کرتے تھے، بخاری (۲۰۲۴) اور مسلم (۱۱۷۴) میں مسروق عن عائشہؓ کے طریق سے مروی ہے، فرماتی ہیں: جب آخری دن آتے تو نبی اپنا تہبند کس لیتے اپنی راتوں کو زندہ رکھتے اور اپنے اہل کو اٹھاتے۔ یہ ایک حدیث ذکر کی، احادیث کے اس مجموعہ سے جو نبی کے اپنے اہل و عیال کیساتھ کثرت عبادت کے باوجود شدت اہتمام کو ظاہر کرتا ہے، میں والدین کو اپنے بچوں کے بارے میں منتبہ اور خبردار کرتا ہوں، ان کی تربیت کا جو آپ کی طرف واجب متوجہ ہے اسے اہتمام سے ادا کریں ، کیونکہ ایسا نہ کرنے کا انجام بہت برا ہے، بچے اور والدین  کے آگ میں جلنے کا باعث بن سکتا ہے، اللہ ہم سب کی برے اقوال و افعال سے حفاظت کرے اور امانت کی ادائیگی میں ہماری مدد کرے۔ آمین۔

آپ کا بھائی/

خالد المصلح

06/09/1425هـ


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں