×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / آداب / کسی عالم کے ہاتھ کا بوسا لینے کا حکم

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:3271
- Aa +

علماء اور دیگر کے ہاتھ کا بوسا لینے کا کیا حکم ہے؟

حكم تقبيل يد العالم

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

 سلف اور بعد کے جمہور علماء جن میں احناف، شوافع اور حنابلہ کے فقہاء شامل ہیں ان سب کے ہاں کسی عالم، والد، استاد یا کسی ایسے شخص کے ہاتھ کا بوسہ لینا جو صاحب فضل ہو جائز ہے اگر یہ اکرام اور خوشنودی کیلئے ہو، جبکہ امام مالکؒ کے ہاں سلام کرتے وقت عالم کے ہاتھ کا بوسہ لینا مکروہ ہے، فواکہ الدوانی میں لکھا ہے (۳۲۶/۲): ’’ظاہر الکلام یہ ہے کہ جس کا ہاتھ چوما جا رہا ہے وہ چاہے عالم ہو، شیخ ہو، سید ہو، والد موجود ہو یا سفر سے آیا ہو، یہی ظاہر مذہب ہے‘‘ یعنی مالکیہ کا، اور بعض اہل علم نے تو مستقل رسالہ میں اہل علم کے آثار جمع کئے ہیں، ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں (۵۷/۱۱): ’’حافظ ابوبکر بن مقری نے ایک رسالہ میں ہاتھ چومنے سے متعلق جیسا کہ ہم نے سنا ہے بہت ساری احادیث اور آثار جمع کئے ہیں، ایک اچھی حدیث زارع العبدی کی ہے وہ عبد القیس کے وفد میں تھے، کہتے ہیں: ہم ایک دوسرے سے آگے بڑھنے لگے تاکہ نبیکے ہاتھ اور پاؤں چوم سکیں (ابوداؤد)۔ اسی طرح مزیدہ العصری کی حدیث بھی ہے، اوراسامہ بن شریک کی حدیث ہے کہتے ہیں: ہم نبی کی طرف گئے اور آپ کے ہاتھ چومے، اس کی سند قوی ہے۔ اسی طرح جابر ؓ کی حدیث ہے کہ عمر ؓ اٹھے اور نبی کے ہاتھ کا بوسہ لیا، اور اسی طرح بریدہ کی حدیث جس میں اعرابی اور درخت والا قصہ ہے، کہنے لگے: یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیجئے میں آپ کے سر کا اور قدموں کا بوسہ لوں تو آپ نے اجازت دے دی۔ بخاری نے ادب مفرد میں عبد الرحمان بن رزین کی روایت ذکر کی ہے کہتے ہیں کہ سلمہ بن اکوع نے اپنی ہتھیلی آگے کی گویا وہ کسی اونٹ کی ہتھیلی ہو تو ہم نے اس کا بوسہ لیا، اسی طرح ثابت سے مروی ہے کہ انہوں نے انسؓ کے ہاتھ کا بوسہ لیا، یہ بھی ذکر کیا کہ علی ؓ نے عباس ؓ کے ہاتھ اور پاؤں کا بوسہ لیا، یہ ابن المقری نے بھی ذکر کیا ہے۔ اور ابو مالک الاشجعی کے طریق سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے ابن ابی اوفی سے کہا: مجھے اپنا ہاتھ دکھائے جس سے آپ نے نبیسے بیعت کی تھی تو انہوں نے مجھے دکھایا تو میں نے اسے بوسہ دیا۔

میری رائے یہ ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں جب تک جس کا بوسہ لیا جا رہا ہے اس کے فتنے میں پڑنے کا خدشہ نہ ہو۔ اور جو آپ کا ایک آدمی کو اپنا ہاتھ چومنے سے منع کرنے کے بارے میں وارد ہوا ہے اور آپ کا یہ کہنا: یہ تو آعاجم اپنے بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں میں تو تم میں سے ہی ایک آدمی ہوں، تو یہ حدیث ہے جسے طبرانی نے اوسط میں، بیہقی نے شعب میں اور ابویعلی نے اپنی مسند میں، ان سب نے یوسف بن زیاد الواسطی عن عبد الرحمان بن زیاد الافریقی عن الاغر بن ابی مسلم عن ابی ہریرہؓ کے طریق یہ روایت ذکر کی ہے، اور یوسف بن زیاد الواسطی اور ان کے شیخ یہ ضعیف ہیں۔ نیل الاوطار میں اس حدیث کے بارے میں شوکانی نے لکھا ہے (۱۰۳/۲): اس کا مدار یوسف بن زیاد الواسطی پر ہے جبکہ وہ ضعیف ہے، لہذا ایسی حدیث مذکورہ بالا آثار جو کہ اباحت اور جواز پر دلالت کر رہے ہیں ان کا مقابلہ نہین کرتی، واللہ اعلم

آپ کا بھائی/

خالد المصلح

18/01/1425هـ

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

 سلف اور بعد کے جمہور علماء جن میں احناف، شوافع اور حنابلہ کے فقہاء شامل ہیں ان سب کے ہاں کسی عالم، والد، استاد یا کسی ایسے شخص کے ہاتھ کا بوسہ لینا جو صاحب فضل ہو جائز ہے اگر یہ اکرام اور خوشنودی کیلئے ہو، جبکہ امام مالکؒ کے ہاں سلام کرتے وقت عالم کے ہاتھ کا بوسہ لینا مکروہ ہے، فواکہ الدوانی میں لکھا ہے (۳۲۶/۲): ’’ظاہر الکلام یہ ہے کہ جس کا ہاتھ چوما جا رہا ہے وہ چاہے عالم ہو، شیخ ہو، سید ہو، والد موجود ہو یا سفر سے آیا ہو، یہی ظاہر مذہب ہے‘‘ یعنی مالکیہ کا، اور بعض اہل علم نے تو مستقل رسالہ میں اہل علم کے آثار جمع کئے ہیں، ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں (۵۷/۱۱): ’’حافظ ابوبکر بن مقری نے ایک رسالہ میں ہاتھ چومنے سے متعلق جیسا کہ ہم نے سنا ہے بہت ساری احادیث اور آثار جمع کئے ہیں، ایک اچھی حدیث زارع العبدی کی ہے وہ عبد القیس کے وفد میں تھے، کہتے ہیں: ہم ایک دوسرے سے آگے بڑھنے لگے تاکہ نبیکے ہاتھ اور پاؤں چوم سکیں (ابوداؤد)۔ اسی طرح مزیدہ العصری کی حدیث بھی ہے، اوراسامہ بن شریک کی حدیث ہے کہتے ہیں: ہم نبی کی طرف گئے اور آپ کے ہاتھ چومے، اس کی سند قوی ہے۔ اسی طرح جابر ؓ کی حدیث ہے کہ عمر ؓ اٹھے اور نبی کے ہاتھ کا بوسہ لیا، اور اسی طرح بریدہ کی حدیث جس میں اعرابی اور درخت والا قصہ ہے، کہنے لگے: یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیجئے میں آپ کے سر کا اور قدموں کا بوسہ لوں تو آپ نے اجازت دے دی۔ بخاری نے ادب مفرد میں عبد الرحمان بن رزین کی روایت ذکر کی ہے کہتے ہیں کہ سلمہ بن اکوع نے اپنی ہتھیلی آگے کی گویا وہ کسی اونٹ کی ہتھیلی ہو تو ہم نے اس کا بوسہ لیا، اسی طرح ثابت سے مروی ہے کہ انہوں نے انسؓ کے ہاتھ کا بوسہ لیا، یہ بھی ذکر کیا کہ علی ؓ نے عباس ؓ کے ہاتھ اور پاؤں کا بوسہ لیا، یہ ابن المقری نے بھی ذکر کیا ہے۔ اور ابو مالک الاشجعی کے طریق سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے ابن ابی اوفی سے کہا: مجھے اپنا ہاتھ دکھائے جس سے آپ نے نبیسے بیعت کی تھی تو انہوں نے مجھے دکھایا تو میں نے اسے بوسہ دیا۔

میری رائے یہ ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں جب تک جس کا بوسہ لیا جا رہا ہے اس کے فتنے میں پڑنے کا خدشہ نہ ہو۔ اور جو آپ کا ایک آدمی کو اپنا ہاتھ چومنے سے منع کرنے کے بارے میں وارد ہوا ہے اور آپ کا یہ کہنا: یہ تو آعاجم اپنے بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں میں تو تم میں سے ہی ایک آدمی ہوں، تو یہ حدیث ہے جسے طبرانی نے اوسط میں، بیہقی نے شعب میں اور ابویعلی نے اپنی مسند میں، ان سب نے یوسف بن زیاد الواسطی عن عبد الرحمان بن زیاد الافریقی عن الاغر بن ابی مسلم عن ابی ہریرہؓ کے طریق یہ روایت ذکر کی ہے، اور یوسف بن زیاد الواسطی اور ان کے شیخ یہ ضعیف ہیں۔ نیل الاوطار میں اس حدیث کے بارے میں شوکانی نے لکھا ہے (۱۰۳/۲): اس کا مدار یوسف بن زیاد الواسطی پر ہے جبکہ وہ ضعیف ہے، لہذا ایسی حدیث مذکورہ بالا آثار جو کہ اباحت اور جواز پر دلالت کر رہے ہیں ان کا مقابلہ نہین کرتی، واللہ اعلم

آپ کا بھائی/

خالد المصلح

18/01/1425هـ

 


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں