×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / ​فتاوی امریکہ / لوگوں کے درمیان فضیلت اور تفاوت کا پیمانہ کیا ہے؟

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:3234
- Aa +

لوگوں کے درمیان فضیلت اور تفاوت کا پیمانہ کیا ہے؟

ما هو ضابط التفاضل بين الناس؟

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے لوگوں کے درمیان ایمان اور تقوی کے اعتبار سے تفاوت رکھا ہے، اللہ تعالی نے فرمایا ہے: ((اے لوگو! ہم نے تمہیں مذکر اور مؤنث سے پیدا کیا اور تمہیں مختلف قوموں اور قبائل کی صورت میں بنایا تاکہ تم ایک پہچان رکھو، تم میں سے سب سے زیادہ کرامت والا اللہ کے ہاں وہی ہے جو سب سے زیادہ تقوی والا ہے ، بے شک اللہ تعالی سب کچھ جاننے والا ہر چیز سے با خبر ہے)) [الحجرات:۱۳]، اور نبی نے فرمایا: ((جس نے عمل میں سستی کی اس کا نسب اسے جلدی آگے نہیں لے جا سکتا)) رواہ ابوداؤد والترمذی، لہذا جو اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ہو اور اللہ کی زیادہ عبادت کرنے والا ہو وہی اللہ کے ہاں اونچے مقام والا اور شرف والا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگوں کے درمیان تفاوت صرف اسی سے ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ تقوی کے علاوہ بھی کچھ ایسے دیگر معیار ہیں جن کی وجہ سے لوگوں میں تفاوت پایا جاتا ہے، جمہور علماء کا کہنا یہ ہے کہ جنس عرب دوسروں سے بہتر ہیں پھر جنس قریش دیگر سے بہتر ہیں، شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے لکھا ہے: ’’علماء کی ایک جماعت کا کہنا ہے اس طرح کسی کو کسی پر فضیلت حاصل نہیں ہے اور یہ متکلمین میں سے بعض علماء کا کہنا ہے جیسے قاضی ابو بکر ابن الطیب وغیرہ، اور یہی بات قاضی ابو یعلی نے معتمد میں ذکر کی ہے، اس قول کو مذہب الشعوبیہ کہا جاتا ہے اور یہ قول ضعیف ہے اہل بدعت کی طرف سے بنایا گیا ہے‘‘، قریش کو دیگر قبائل پر فضیلت حاصل ہونے کے بہت سے دلائل موجود ہیں، جیسا کہ مسلم نے ذکر کیا ہے((اللہ نے بنی اسماعیل میں سے بنو کنانہ کو چنا، اور کنانہ میں سے قریش کو چنا اور قریش میں سے بنی ہاشم کو چنا اور بنی ہاشم میں سے مجھے چنا)) یہ حدیث اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ قبائل اور قوموں میں تفاوت پایا جاتا ہے اور اس میں کوئی حرج والی بات نہیں ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ((اور تمہارا رب جسے چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے چنتا ہے ان کیلئے کوئی اختیار نہیں ہے جو یہ شرک کرتے ہیں اللہ اس سے پاک اور منزہ ہے)) [القصص:۶۸] تو اللہ تعالی لوگوں میں سے بعض کو چنتے ہیں اختیار کرتے ہیں اور انہیں دوسروں پر فضیلت بخشتے ہیں جیسا کہ ہر زمانے اور ہر مکان میں ہوتا ہے اور یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے، باقی یہ کہ یہ بات بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس فضیلت کا اللہ کے ہاں مقام بنانے میں کوئی دخل نہیں، بلکہ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ عزت والا وہی ہے جو سب سے زیادہ تقوی والا ہے اور سب سے بہتر وہی ہے جو سب سے زیادہ اطاعت کرنے والا اور خشیت رکھنے والا ہے، آپ نے فرمایا: ((جس کے عمل میں سستی ہو اس کا نسب اسے جلدی آگے نہیں لے جا سکتا)) اور اللہ تعالی نے فرمایا: ((تم میں سے سب سے زیادہ عزت والا وہی ہے جو سب سے زیادہ تقوی والا ہے))۔

اور جہاں تک یہ بات ہے کہ خلافت اور امامت کیلئے قریشی ہونا شرط ہے تو یہ جمہور علماء کا قول ہے، پہلے بھی تھا اب بھی ہے، بلکہ اس پر تو اجماع بھی منقول ہے، ائمہ اربعہ کا یہی قول ہے اور اس پر بہت سارے دلائل بھی موجود ہیں، ایک تو وہ حدیث جو میں نے ذکر کی، اسی طرح شیخان نے ابو ہریرہؓ کی روایت ذکر کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:چ((لوگ اس معاملے میں قریش کے تابع ہیں، ان کا مسلمان قریش کے مسلمان کے تابع ہے اور ان کا کافر قریش کے کافر کے تابع ہے))،چایک دلیل حضرت عمر ؓ کی روایت بھی ہے جو کہ مرفوعاََ مروی ہے:چ((یہ امر قریش کے ہاتھ میں ہی رہے گا جب تک ان میں سے دو بھی باقی رہیں))، اور اس میں سوائے معتزلہ اور خوارج کے کسی نے بھی مخالفت نہیں کی اور جو پیچھے گزرا کہ لوگوں کے درمیان تفاضل تقوی کے اعتبار سے ہے وہ بھی اس امر کے منافی نہیں ہے، کیونکہ قریش کو اس طرح سے اختیار کئے جانے کے پیچھے کچھ باعث اور اسباب ہیں مثال کے طور پر یہ قبیلہ تمام قبائل سے بہتر ہے اور اس میں اللہ نے بڑی خیر جمع کی ہے اور اللہ تعالی کا اس قبیلے کو چننا جیسا کہ پیچھے حدیث میں گزرا خود اس بات کی دلیل ہے اور اس اختیار کرنے کی ایک حکمت یہ بھی ہے جو کہ ابو بکر ؓ نے انصار سے کہا جب انہوں نے نبی کی وفاۃ کے بعد خلافت کا مطالبہ کیا: ’’عرب سوائے اس قبیلے کے کسی کے آگے گٹھنے نہیں ٹیکیں گے‘‘، معاملہ جو بھی ہو ہم پر تو یہ واجب ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی بات مانیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ((مؤمنین کو جب اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جائے کہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو ان کا تو یہی کہنا ہوتا ہے، ہم نے سن لیا اور ہم نے اطاعت کی، اوریہی لوگ فلاح پانے والے ہیں)) [النور:۵۱] اور یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عطا کرے اور وہ بڑے فضل والا ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی جان لینا چاہئیے کہ اس خصوصیت کو اگرچہ بہت سے لوگ باعث شرف اور عزت سمجھتے ہیں، لیکن شریعت کا اس بارے میں نظریہ مختلف ہے اور وہ یہ کہ امارت قیامت کے دن ندامت ہو گی، نبی نے فرمایا: ((تم لوگ عنقریب امارت کے بارے میں حرص رکھنے لگو گے، اور یہ قیامت کے دن ندامت ہو گی)) رواہ البخاری، اور فرمایا: ((یہ ایک امانت ہے اور روز قیامت یہ ذلت اور ندامت ہوگی  سوائے اس شخص کیلئے جس نے اس کو اس کے استحقاق کے ساتھ لیا ہو اور جو اس کا حق ہے اسے ادا کیا ہو)) رواہ مسلم


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں