×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / ​فتاوی امریکہ / کیا معصیت اور گناہوں کا بصیرت پر اثر پڑتا ہے کہ ان کی وجہ سے بصیرت محو ہو جائے؟ اور لفظ ادراک کا اطلاق اللہ تعالی پر کرنا کیا درست ہے؟

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:3010
- Aa +

کیا معصیت اور گناہوں کا بصیرت پر اثر پڑتا ہے کہ ان کی وجہ سے بصیرت محو ہو جائے؟ اور لفظ ادراک کا اطلاق اللہ تعالی پر کرنا کیا درست ہے؟ اور امام غزالی کے اس قول کا کیا مطلب ہے: ’’یہ دنیا اللہ تعالی کے ادراک کی کوشش کا درمیانی مرحلہ ہے‘‘؟ هل للمعاصي والذنوب أثر في انطماس البصيرة؟

وهل يصح إطلاق لفظ الإداراك على الله؟

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ معصیت اور گناہ دلوں کو داغ آلود کرنے اور بصیرت کے مٹانے کے اعلی ترین اسباب میں سے ہیں، اور اس کے نتیجے میں دلوں پر مہر  اور پردہ لگ جاتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ((اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کیلئے بڑا عذاب ہے)) [البقرہ:۷] اس کے مد مقابل تقوی ہے جو کہ دلوں کو زندہ کرتا ہے اللہ تعالی فرماتے ہیں:((اے ایمان والو اگر تم اللہ سے ڈرو گے (تقوی اختیار کرو گے) وہ تمہیں یہ فرقان(حق و باطل میں فرق کرنے والی کتاب) عطا کرے گا)) [الانفال:۲۹] یعنی اگر تم اللہ کے اوامر کو بجا لاؤ گے اور اس کی منع کی ہوئی چیزوں سے رک جاؤ گے تو اللہ تمہیں یہ حق و باطل میں فرق کرنے والی کتاب سے نوازیں گے۔

اور جہاں تک امام غزالی کی بات کا تعلق ہے جس کے بارے میں آپ نے پوچھا ہے: ’’یہ دنیا اللہ تعالی کے ادراک کی کوشش کا درمیانی مرحلہ ہے‘‘، تو اس کلام کے بارے میں کوئی حکم لگانے سے پہلے ان کے کلام کی وضاحت کا طلبگار ہوں، جو بھی ہو انسان کے عدم سے وجود میں آنے کا ایک مرحلہ ہی ہے، اللہ تعالی نے فرمایا: ((کیا انسان پر زمانے کا کوئی ایسا وقت آیا ہے جب وہ کچھ نہیں تھا اس کا کوئی ذکر نہیں تھا)) [الانسان:۱] تو اللہ تعالی نے اسے اپنی عبادت کیلئے وجود بخشا، فرمایا: ((اور میں نے جن و انس کو اپنی عبادت کیلئے ہی پیدا کیا ہے))[الذاریات:۵۶] اللہ تعالی کی عبادت کا ثمرہ اس کی معرفت کا حاصل ہونا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب سے عظیم مقاصد میں سے ہے، اسی وجہ سے نبی کا فرمان ہے جو کہ ترمذی اور ابن ماجہ میں مذکور ہے: ((یہ دنیا ملعون ہے اور جو کچھ اس میں ہے وہ بھی ملعون ہے سوائے اللہ کے ذکر اور اس کے ہمنوا امور کے اور عالم اور علم سیکھنے والے کے))، اور دنیا سے مراد یہاں یہ ہے کہ ہر وہ امر جو بندے کو اس کی تخلیق کے مقصد سے غافل کر دے اور وہ مقصد اللہ کی عبادت اس کی معرفت اور توحید ہے، تو اگر امام غزالی کا اپنے اس قول ’’یہ دنیا اللہ تعالی کے ادراک کی کوشش کا درمیانی مرحلہ ہے‘‘ سے مراد یہی ہے جو ہم نے ذکر کیا تو معنی صحیح ہے، لیکن اللہ تعالی کی طرف نسبت کرتے ہوئے لفظ ادراک کا اطلاق صحیح نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی کا ادراک ایک امر محال ہے ناممکن ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ((نظریں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں اور وہ نظروں کا ادراک کر سکتا ہے)) [الانعام:۱۰۳]، یہ احاطہ اور نظر کے ادراک کے اعتبار سے ہے، ایمان والے روز قیامت اللہ تعالی کو دیکھیں گے لیکن وہ اس کا ادراک اور احاطہ نہیں کر سکیں گے، اور رؤیت کے اثبات اور ادراک کی نفی کرنے میں کوئی تناقض بھی نہیں ہے، کیونکہ ادراک رؤیت کی نسبت زیادہ اخص ہے اور اس کی نفی کرنے سے رؤیت کی نفی بھی لازم نہیں آتی ، سورج کو ہم دیکھتے تو ہیں لیکن اس کے جلنے کی شدت اور روشنی کی وجہ سے اس کا احاطہ نہیں کر سکتے، لہذا ممکن ہے کوئی چیز نظر تو آئے مگر اس کا احاطہ نہ کیا جا سکے، اور جہاں تک ادراک علمی کی بات ہے تو وہ جو کوئی بھی ہو کسی کو بھی حاصل نہیں ہو سکتا، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ((وہ اس کا علم کے اعتبار سے احاطہ نہیں کر سکتے)) [طہ:۱۱۰] تو مخلوق میں سب سے افضل اور اللہ تعالی کو سب سے زیادہ جاننے والے ہمارے نبی ہیں اور وہ اپنی دعا میں کہہ رہے ہیں جیسا کہ مسلم میں مروی ہے: ((میں آپکی تعریف کا شمار نہیں کر سکتا جیسا آپ نے اپنی خود تعریف کی ہے))، حتی کہ آپ کے لئے تو مخلوق کی شفاعت کے وقت خاص اللہ کی طرف سے وہ تعریف کے طریقے کھلیں گو جو وہ پہلے نہیں جانتے تھے، حضرت انسؓ کی حدیث جو کہ بخاری میں شفاعت عظمی کے قصے میں ہے آتا ہے: ((تو مجھے اجازت دی جائے گی اور اللہ مجھے وہ تعریف الہام کریں گے جس سے میں اللہ کی تعریف کروں گا ، وہ تعریف ابھی میرے علم میں نہیں ہے، تو میں اس وقت ہی اللہ کی وہ تعریف کروں گا))۔

اہم بات یہ ہے کہ نظر اور علم کے اعتبار سے اللہ تعالی کا احاطہ کرنا ناممکن ہے، اللہ کی ذات اس سب سے منزہ ہے نہ عقل اس کا ادراک کر سکتی ہے اور نہ ہی کوئی سوچ اس تک پہنچ سکتی ہے


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں