×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / ​فتاوی امریکہ / کیا فضیل بن عیاضؒ اور ابراہیم بن ادہم ؒ صوفیاء کے ائمہ میں سے تھے؟

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2822
- Aa +

کیا فضیل بن عیاضؒ اور ابراہیم بن ادہم ؒ صوفیاء کے ائمہ میں سے تھے؟ اور امام غزالی کی کتابوں کے بارے میں آپکی کیا رائے ہے؟

هل الفضيل بن عياض وإبراهيم بن أدهم من أئمة الصوفية

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:

صوفیاء کی طرف نسبت رکھنے والے لوگ دو طرح کے ہیں:-

پہلی قسم: صوفیاء کے شیوخ، جو کہ کبار متقدمین میں سے تھے جیسے فضیل بن عیاض، ابراہیم بن ادہم، ابو سلیمان الدارانی، جنید بن محمد، عبد القادر جیلانی اور دیگر جو کہ انہیں کے ہمنوا تھے، تو یہ وہ لوگ ہیں جو اعمال قلوب پر خاص توجہ دیتے تھے، زہد اور عبادت کا خاص اہتمام کرتے تھے، ابن القیم ؒ نے ان کے منہج کے بارے میں فرمایا ہے: ان لوگوں نے اعمال قلوب پر کلام کیا اور احوال پر ایسا کلام جو کہ مفصل جامع اور واضح تھا بغیر کسی ترتیب کے۔ اور مقامات کا کسی معلوم عدد میں کوئی حصر نہیں یہ لوگ اس سے بڑھ کر تھے اور اس سے اعلی اور بڑے امور میں سوچ بچار کرتے تھے، یہ لوگ تو حکمت، معرفت، دلوں کی پاکیزگی، نفوس کی طہارت اور معاملات کی درستگی کے بارے میں زیادہ حریص تھے، اسی لئے ان کا کلام تھوڑا تھا مگر برکت والا تھا، اور متأخرین کا کلام طویل ہے مگر برکت کم ہے، اور رسول اللہ کا فرمان ہے: ((برکت اللہ کی طرف سے ہے))، لہذا بندے کیلئے کلام اللہ اور کلام رسول سے بڑھ کر برکت، امراض کی شفاء اور اپنی اصلاح نہیں ہے جو کلام اللہ اور کلام رسول میں غور و فکر کرتا ہو اور خاص اہتمام رکھتا ہو: ((کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے لگے ہیں)) [محمد:۲۴] ان شیوخ کے بارے میں سب سے معتدل بات وہی ہے جو  ابن تیمیہ ؒ نے فتاوی میں کہا ہے۔ {۱۱/۱۸

صحیح یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ کی طاعات میں محنت کرنے والے تھے جیسے دیگر اہل اطاعت نے محنت کی تو ان میں سے کوئی ہے جو اپنے اجتہاد کے بقدر سبقت لے گیا اور کوئی ایسا بھی ہے جو درمیان میں مقتصد ہی رہا اور ان لوگوں میں سے ہے جن کو دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال دیا جائے گا۔ ان میں سے بعض کا اپنے اپنے اجتہاد کے اعتبار سے طریق ٹھیک تو تھا مگر صحابہ اور پہلے والوں کے موافق نہین تھا جس کی وجہ سے ائمہ نے بعض صوفیاء پر جرح بھی کی اور ان کے طریق کو عیب دار ٹھہرایا۔ بدعت میں مشغول ہونا دلوں کو بیمار کر دیتا ہے اور سنت کو موت دیتا ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے اقتضاء الصراط المستقیم میں لکھا ہے(۵۹۷/۲): "شرعی احکام دلوں کی غذاء ہیں اور جب دلوں کو بدعت بطور غذا ملتی ہے اس میں سنت کی فضیلت نہیں رہتی تو یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی نے خراب کھانے سے غذا حاصل کی ہو"۔

دوسری قسم: ان صوفیاء کی ہے جو غلو کا شکار ہیں یہ لوگ پہلی قسم کے صوفیاء سے ہٹ گئے، کیونکہ بدعت ہلکے سی انحراف سے ہی شروع ہوتی ہے پھر راستہ کھلتا چلا جاتا ہے اور دوری بڑھتی چلی جاتی ہے، اس قسم کے افراد نے ظاہراََ تو زہد اور تقوی کا لباس پہنا لیکن باطن میں الحاد اور کفر لئے ہوئے تھے، ہر ہلاکت کو دعوت دی اور ہر بدعت کو اکٹھا کیا حتی کہ ان کی یہ حالت ہو گئی کہ دین و ملت سے ہی نکل گئے، بلکہ یہ یہود و نصاری سے بھی زیادہ برے نکلے، اس قسم کے ائمہ یہ ہیں: حسین بن منصور الحلاج ، یہ وہ ہے جس نے الہ ہونے کا دعوی کیا، علمائے اسلام نے اسے کافر قرار دیا اور اسے حالت ارتداد میں ہی قتل کر دیا گیا، اللہ اسے ویسے ہی عذاب دیں جس کا وہ مستحق ہے، اور ابن سبعین، ابن الفارض، ابن عربی، یہ سب لوگ بھٹکے ہوئے لوگوں کے سردار ہیں آگ کی طرف بلانے والوں کے ائمہ ہیں، اللہ سے دین اور دنیا میں عافیت مانگتے رہنا چاہئیے۔

ان دونوں قسموں کے درمیان بعض ایسے ہیں جو صوفیاء کی طرف نسبت رکھتے ہیں، بعض ایسے ہیں جوغلو رکھتے ہیں اور بعض کچھ کم ہیں، ہر کوئی اپنے مطابق عمل کر رہا ہے، نجاۃ پانے والا وہی ہے جو کتاب اور سنت کو تھامے رکھے کیونکہ یہ نوح ؑ کی کشتی کی طرح ہیں جو ان میں سوار ہو گیا بچ گیا اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں ہلاکت والے راستے سے نجاۃ دیں، واللہ اعلم

جہاں تک امام غزالی کی بات ہے تو ان کی کتابیں بدعات اور منحرف باتوں سے خالی نہیں؛ کیونکہ انہوں نے بدعت والے مذاہب کو کثرت سے نقل کیا ہے اور انہوں نے سلف کے منہج سے کوئی خاص اہتمام نہیں رکھا، الا یہ کہ وہ اپنی آخری زندگی میں سلف کے راستے پر آ گئے اور اپنے بچھلے منہج سے ہٹ گئے، ایک قول یہ ہے کہ ان کا انتقال اس حالت میں ہوا کہ صحیح بخاری ان کے سینے پر تھی ، واللہ اعلم۔


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں