×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / ​فتاوی امریکہ / {اور ہم نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کیلئے ہی پیدا کیا}۔ کیا اس آیت میں تعارض پایا جا رہا ہے؟

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:5159
- Aa +

{اور ہم نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کیلئے ہی پیدا کیا} [الذاریات:۵۶]۔ کیا یہ آیت نبی ﷺ کے اس قول سے متعارض ہے ((میں آپ کی تعریف شمار نہیں کر سکتا))؟ اور بدعت کیا ہے؟ اور کیا بدعت حسنہ اور بدعت سیۂ جیسا کچھ ہے؟

هل يتعارض قول الله تعالى: {وما خلقت الجن والإنس إلا ليعبدون}

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:

آیت اور حدیث کے درمیان کوئی تعارض نہیں، کیونکہ یہاں جو نفی کی گی ہے ہو احصاء یعنی احاطہ،شمار کرنے کی نفی ہے اور یہی صحیح ہے کیونکہ بندے کو کلام کی جامعیت اور بیان کرنے کی قوت اور زبان کی فصاحت جو بھی عطا کیا گیا ہو وہ اللہ تعالی کی حمد و ثناء کا احاطہ نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس کی قدرت طاقت رکھتا ہے، امام مالکؒ نے فرمایا ہے: اس کا مطلب یہ ہے میں آپ کی نعمت احسان اور تعریف کا احاطہ نہیں کر سکتا، میں جتنی بھی تعریف کروں اس نفی سے جنس ثناء کی نفی مراد نہیں بلکہ معجوز عنہ احاطہ ہے، ہر قسم کی تعریف کا احاطہ، اور جہاں تک اجمالاََ تعریف کی بات ہے تو اس پر قدرت ہے اور تمام قسم کی تعریف اور ثناء جو کہ نبی سے مأثور ہے وہ بھی اسی مقدور علیہ کی قبیل میں سے ہے۔ اور ہمارے ثناء کا احاطہ نہ کر سکنے کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالی تعریف کی احاطہ اس کی ذات و صفات کا احاطہ کرنے کی قبیل میں سے ہے اور یہ مخلوق کے حق میں متعذر ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ((اور وہ اس کے علم کا احاطہ نہیں کر سکتے)) [طہ:۱۱۰] تو ہم اس کی جو بھی تعریف کر لیں جتنی بھی حمد بیان کر دیں حد کمال و احاطہ تک نہیں پہنچ سکتے کیونکہ ہم اس کے کل اسماء اور صفات اور تعریف کے تمام تقاضوں کا علم نہیں رکھتے، اور ایک اور سبب بھی بتایا جا سکتا ہے اور وہ یہ کہ بندوں پر اللہ تعالی کی نعمتیں بہت زیادہ ہیں ان کا انواع اور اجناس میں حسر کرنا مشکل ہے اور ہر نعمت حمد و ثنا کا تقاضا کرتی ہے اور بندے اس کی طاقت نہیں رکھتے اور نہ ہی اس کا احاطہ کرنے کی سکت رکھتے ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ((اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا شروع کرو انہیں شمار نہیں کر سکو گے)) [ابراہیم:۳۴] پس تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جیسے ہم کہتے ہیں ، اور تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں ہمارے کہنے سے بھی زیادہ اور تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جیسے وہ خود کہتا ہے آسمانوں اور زمینوں  اور ان کے درمیان کے فاصلے کے بقدر۔

کہنے والے نے صحیح کہا ہے:

اگر ہم اس کی تعریف کرتے ہیں تو کتنا ہی بعید ہے کہ ریت کے ذروں یا بارش کے قطروں کی تعریف کی جائے۔

لیکن ہمارے بس میں جو ہے ہم وہ کرتے ہیں اور جس نے اپنی طاقت کے بقدر لگایا اس کا عذر قابل سماع ہے۔

اور بدعت دین میں ہر اس نئے طریقے کو کہتے ہیں جو شریعت کے مشابہ ہو اور اس پر چلنے سے بھی مقصود وہی ہو جو شریعت سے مقصود ہے، لہذا بدعت ہر وہ عبادت اور عقیدہ ہے جو رسول اللہ کے بعد بنایا گیا ہو ، اس کے اسباب نبی کے زمانے میں بھی ہوں اور موانع بھی موجود نہ ہوں لیکن اس پر نہ کسی نے عمل کیا ہو نہ کسی نے اس کا عقیدہ رکھا ہو اور نہ ہی اس کا حکم کیا ہو اور وہ بدعات جو رسول نے بیان کیں وہ اقوال، عبادات اعتقادات اور افعال میں ہو سکتی ہیں۔

ابن تیمیہ ؒ نے فتاوی میں لکھا ہے (۳۰۶/۲۲): "اور بدعت کی دو قسمیں ہیں: ایک قسم وہ جو اقوال  اور اعتقاد میں ہے اور دوسری قسم افعال اور عبادات میں، دوسری قسم کے ضمن میں پہلی بھی آجاتی ہے جیسا کہ پہلے قسم کی وجہ سے دوسری قسم وجود میں آتی ہے"۔

واجب یہی ہے کہ دونوں قسموں سے بچا جائے کیونکہ بدعت اپنی تمام تر صورتوں کے ساتھ کرنے والے کیلئے باعث شر ہی ہے اور شریعت کو جرح کرنے کا کام دیتی ہے اور یہ باور کراتی ہے کہ شریعت ناقص ہے رسول اللہ کی ذات میں بھی باعث جرح ہے، وہ اس طرح کہ بدعت تو خیر ہے جس سے اللہ کا تقرب حاصل کیا جائے اور نبی نے ہمیں اس کا بتایا نہیں تو گویا یہ نبی کی طرف سے تبلیغ رسالت میں کوتاہی ہے، اور باقی تفصیل کیلئے یہ مختصر جواب نہ کافی ہے


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں