×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / ​فتاوی امریکہ / مخلوق کے پیدا کئے جانے کا مقصد کیا ہے؟

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:4417
- Aa +

مخلوق کے پیدا کئے جانے کا مقصد کیا ہے؟

ما هي الغاية من الخلق

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:

یہ بات آپ کو معلوم ہونی چاہئیے کہ اللہ تعالی نے جن و انس کو اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے، فرمایا: ((اور میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کیلئے ہی پیدا کیا ہے)) [الذاریات:۵۶] اور یہ عبادت جس کی وجہ سے انہیں پیدا کیا گیا ہے یہ وہ توحید ہے جس میں اللہ کی معرفت اس کی محبت، اس کی طرف رجوع اسی کہ طرف توجہ اس کے ما سوا سے اعراض، جو اس نے حکم دیا اس کو پورا کرنا اور جس سے روکا اس سے رک جانا یہ سب شامل ہے، اسی لئے اللہ نے اپنے تمام رسول بھیجے، فرمایا: ((اور ہم نے آپ سے پہلے جو رسول بھی بھیجا اسے وحی کی کہ میں ہی صرف ایک الہ ہوں بس میری عبادت کرو)) [الانبیاء:۲۵]، تو جب بھی بندہ اپنے رب کی معرفت میں آگے بڑھتا ہے توحید، عبادت، انابت، محبت اور تعظیم میں بھی آگے بڑھتا ہے۔

اللہ تعالی کی معرفت اور اس کی توحید میں تین بنیادی امور ہیں:-

سب سے پہلے: یہ بات جاننا کہ وہی خالق ہے مالک ہے رازق ہے اور امور کی تدبیر کرنے والا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ((جان لو کہ تخلیق بھی اسی نے کی اور امور کی ڈور بھی اسی کے ہاتھ میں ہے اللہ جو کہ دونوں جہانوں کا رب ہے وہ بڑی عظمت والا ہے)) [الاعراف:۵۴]، اور فرمایا: ((آسمانوں اور زمین اور ان کے بیچ جو کچھ ہے یہ سب اللہ کی ملکیت ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے)) [المائدہ:۱۲۰] اور فرمایا: ((بے شک اللہ ہی رزق دینے والا ہے قوت والا ہے اور محکم ہے)) [الذاریات:۵۸]، اور اس نوع کی معرفت کو علماء توحید الربوبیت کہتے ہیں،اور یہ تمام مخلوق کیلئے واضح ہے اور اس توحید کے اقرار پر امت کا اجماع ہے اور جو اس کا انکار کرے تو یہ اس کی طرف سے تکبر ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ((اور انہوں نے اس کا انکار کیا جبکہ ان کے دلوں نے اس کا یقین کر لیا تھا اور یہ ان کی طرف سے ظلم اور کبر کی وجہ سے تھا)) [النمل:۱۴]

دوسرا یہ کہ: اللہ تعالی کی اس طرح سے معرفت کہ وہ معبود بر حق ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، یہ تبھی ہو گا جب صرف اس کی عبادت کی جائے اس کے سوا نہ کسی کی عبادت کی جائے نہ ہی سجدہ کیا جائے نہ ہی اس کے سوا کے نام پر ذبح کیا جائے اور نذر بھی صرف اسی کے نام کی مانی جائے، صرف اسی سے مدد طلب کی جائے اور اسی کی شریعت کو حاکم مانا جائے اس کے حکم کے سوا کوئی اور حکم نہ مانا جائے، اللہ تعالی کے اس قول کا تقاضا بھی یہی ہے: ((ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں)) [الفاتحہ:۵]، ((اور تمہارے رب نے فیصلہ کیا کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو)) [الاسراء:۲۳]، ((اور اپنے رب کی عبادت میں کوئی دوسرے کو شریک نہ کرے)) [الکہف:۱۱۰]، ((اور اس کے حکم میں کسی کو شریک نہ کرے)) [الکہف:۲۶]، یہی بیغام ہے جو اللہ نے رسولوں کو دے کر بھیجا، فرمایا: ((اور ہم نے آپ سے پہلے جو رسول بھی بھیجے انہیں ہم نے وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ،میری ہی عبادت کرو)) [الانبیاء:۲۵] اور اسی قضیہ میں رسولوں اور ان کی امتوں کے درمیان تنازع ہوا۔

تیسرا یہ کہ: اللہ تعالی کے اسماء اور صفات کے اعتبار سے اس کی معرفت، اور وہ یہ کہ ہم  اللہ کیلئے ان اسماء اور صفات کا اقرار کریں جو اس نے اور اس کے رسول نے ثابت قرار دیں، اور یہ اقرار بغیر کسی تمثیل، بغیر کسی کیفیت، اور بغیر کسی تحریف و تعطیل کے ہو: ((اس جیسی کوئی شے نہیں اور وہ سب کچھ سننے والا سب کچھ دیکھنے والا ہے)) [الشوری:۱۱] اس آیت کریمہ کے معنی میں غور کریں اس کی ابتداء میں ہی اللہ تعالی نے یہ ثابت کر دیا کہ مطلقا اس جیسا کوئی نہیں ہے پھر اپنے لئے سننے اور دیکھنے کی صفت کا اثبات کیا، پس وہ سمیع بھی ہے اور بصیر بھی اور ہم سمیع و بصیر کا معنی جانتے ہیں اسی لئے اس کا ویسے ہی اقرار کرتے ہیں جیسے اللہ نے ہمیں بتایا، اب یہ کہ اس کا سننا کیسے ہوتا ہے؟ کیا اللہ کے کان بھی ہیں جس سے وہ سنتا ہے؟ ہم ان باتوں میں نہیں جائیں گے بلکہ یہ کہیں گے وہ سنتا اور دیکھتا ہے جیسے اس نے ہمیں اپنے بارے میں خبر دی اور اس کو ہم کیف سے مقید نہیں کریں گے ، ایسے ہی کہیں گے جیسے امام مالکؒ نے کہا جب ان سے استواء کے بارے میں سؤال کیا گیا: "استواء معلوم ہے" یعنی لغۃََ ہمیں اس کا معنی پتہ ہے؛ اللہ تعالی ہم سے ایسے الفاظ میں خطاب کرتے ہیں جن کا معنی ہم جانتے ہیں لیکن "اس کی کیفیت مجہول ہے" مطلب یہ کہ اس استواء کی کیفیت ہمارے لئے نہیں ذکر کی گئی ’’اور اس کے بارے میں سؤال کرنا بدعت ہے‘‘ اور یہ اس لئے کہ صحابہ ؓ نے جب یہ کلام نبی سے سنا اور قرآن میں اس کی تلاوت کی، تو اس کے بارے میں کوئی سؤال نہیں کیا بلکہ اس کا ایسے ہی اثبات کیا جیسے اللہ تعالی نے اپنے لئے اثبات کیا ہے ، بغیر کیفیت، تمثیل، تحریف اور تعطیل کے، اس جواب کے ساتھ میں نے بعض کتابیں بھیجی ہیں جن میں سلف کے عقیدے کی وضاحت کی گئی ہے لہذا ان سے استفادہ کریں اور اس قاعدے کی ان کتب میں مزید وضاحت بھی ہے۔

جب بندہ اپنے رب کو معرفت کی ان تمام انواع کے ساتھ جان لیتا ہے تو وہ خود بخود عبادت، انابت، محبت اور تعظیم کے اعتبار سے اپنے رب کی طرف کھنچتا چلا جاتا ہے، ان تمام انواع معرفت کو صحیح سے جاننا اور بجا لانا ہی مخلوق کے پیدا کرنے کا اصل مقصد ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ((اور میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کیلئے ہی پیدا کیا ہے)) [الذاریات:۵۶] اس کے سوا دیگر مخلوقات جتنی بھی ہیں تو ہر مخلوق کے پیدا کرنے کی کوئی نہ کوئی حکمت ہے، جو جاننے کا حقدار ہے وہ جانتا ہے اور جو نہیں جانتا وہ نہیں جانتا، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ((اور ہم نے آسمان زمین اور ان کے درمیان جو کچھ بھی ہے وہ کھیل کود کیلئے ہی پیدا نہیں کیا، اگر ہم نے کھیل کا ہی کوئی سامان کرنا ہوتا تو ہم اپنے پاس سے ہی اس کا انتظام کر لیتے اگر ہم نے ایسا کرنا ہی ہوتا، بلکہ ہم تو حق کو باطل پر دے مارتے ہیں جو اس کا سر توڑ ڈالتا ہے اور وہ ایک دم ملیا میٹ ہو جاتا ہے اور جو باتیں تم بنا رہے ان کی وجہ سے خرابی بھی تمہاری ہی ہے)) [الانبیاء:۱۶،۱۷،۱۸] اللہ تعالی فرما رہے ہیں انہوں نے زمین و آسمان بغیر کسی فائدہ کیلئے کھیل کود کیلئے نہیں بنایا، بلکہ حق کیلئے برحق طریقے سے بنایا ہے تاکہ بندے اس سے دلیل پکڑیں کہ وہی خالق عظیم ہے ، امور کی تدبیر کرنے والا ہے حکمت والا ہے، رحمان و رحیم ہے ایسی ذات ہے جو کمال  اور تعریف کے اونچے درجات کو پہنچی ہوئی ہے تمام عزت اسی کیلئے ہے۔ اور یہ تمام کائنات اللہ تعالی نے اپنے بندوں کیلئے مسخر کی ہے اوراس کو انسان کی اطاعت اور خدمت میں لگایا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ((اور اس نے اپنی طرف سے جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے اسے تمہارے لئے مسخر کر دیا)) [الجاثیہ:۱۳] اس سے بندے اس کی عظمت اور قدرت پر دلیل پکڑتے ہیں کیونکہ اس میں جو کچھ بھی ہے وہ اس مذکور مقصد کی تحقیق کیلئے ہے ((اور میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کیلئے ہی پیدا کیا ہے)) [الذاریات:۵۶


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں