×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / ​فتاوی امریکہ / قرآن میں مجاز کی کیا حقیقت ہے؟

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:5343
- Aa +

قرآن میں مجاز کی کیا حقیقت ہے؟ میرے بعض دوستوں نے مجھے بتایا کہ قرآن کو ہر ہر حرف کے اعتبار سے قبول کرنا چاہئیے، لہذا جب ’’اللہ کے ہاتھ‘‘ کا ذکر آئے تو ہم پر لازم ہے کہ اسے ایسے ہی قبول کریں جیسے مذکور ہے اور اس کی تأویل نہ کریں، کیا یہ صحیح ہے؟ اور امام غزالی ؒ کی کتاب جواہر القرآن میں تشبیہ سے کیا مراد ہے: ’’قرآن ایک نا ختم ہونے والا حیران کن نکات سے بھرا ہوا سمندر ہے جو بڑے ہی قیمتی موتیوں سے بھر پور ہے، بعض لوگ بس ان نکات پر ہی اکتفاء کر لیتے ہیں جبکہ دوسرے لوگ اس کے موتیوں کی تلاش کرتے ہیں‘‘ اور اس قول سے کیا مراد ہے’’قرآن کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن‘‘؟

ما هي حقيقة المجاز في القرآن

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:

صحیح یہ ہے کہ قرآن میں کوئی مجاز نہیں ہے، اور اہل بلاغت کے مطابق مجاز کی تعریف یہ ہے: لفظ کا اس جگہ استعمال کرنا جس جگہ کیلئے اسے وضع نہیں کیا گیا، مثال کے طور پر شیر سے مراد ایک چیر پھاڑ کرنے والا جانور ہے، تو اگر آپ کسی کوکہتے سنیں: میں نے شیر کو دیکھا جو کلام کر رہا تھا تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اس کی مراد ایک بہادر آدمی ہے اور یہ خیال آپکو قطعاََ نہیں آئے گا کہ اس سے مراد وہی چیر پھاڑ کرنے والا جانور ہے کیونکہ اس سے کلام کرنا بہت بعید ہے، تو اب یہ کہا جائے گا کہ یہ مجاز ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ مجاز نہیں بلکہ حقیقت ہی ہے کیونکہ عرب اس لفظ سے یہی سمجھتے ہیں جو ہم نے ابھی ذکر کیا لہذا یہ اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ یہ حقیقت ہے اور اس مسألہ کی تفصیل اس مختصر جواب میں نہیں کی جا سکتی اور جو میں نے ذکر کیا ہے یہ کافی ہونا چاہئیے۔

اور جو آپ نے امام غزالی ؒ کے کلام کا مطلب پوچھا کہ: ’’قرآن ایک نا ختم ہونے والا حیران کن نکات سے بھرا ہوا سمندر ہے جو بڑے ہی قیمتی موتیوں سے بھر پور ہے، بعض لوگ بس ان نکات پر ہی اکتفاء کر لیتے ہیں جبکہ دوسرے لوگ اس کے موتیوں کی تلاش کرتے ہیں‘‘ اسی طرح ’’قرآن کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن‘‘ تو اس کا جواب درج ذیل ہے:

یہ کلام مجمل ہے اور اس میں صحیح معنی پایا جاتا ہے اور ایک فاسد معنی بھی پایا جاتا ہے، اگر ان کی مراد اس سے یہ ہے کہ یہ قرآن دلائل و براہین پر مشتمل ہے جو اس کے اعجاز پر دال ہیں اور وہ رب العالمین کی طرف سے ہے جس کو روح الامین محمد پر لے کر نازل ہوئے تاکہ وہ لوگوں کو خبردار کریں اور یہ کہ اکثر لوگ الفاظ پر ہی وقوف کرتے ہیں اور ان سے حاصل شدہ معانی میں سوچ بچار نہیں کرتے، وہ معانی جو ظاہری لفظ کے خلاف نہ ہوں اس کی صحت میں تو کوئی شک نہیں ہے کیونکہ لوگوں کی سوچنے کی استعداد میں تفاوت ہوتا ہے اسی وجہ سے علی ؓ سے جب یہ پوچھا گیا کیا رسول اللہ نے خاص طور پر کچھ علم آپکو عنایت فرمایا؟ کہنے لگے: ’’نہیں ، سوائے کتاب اللہ کی فہم کے جو وہ اپنے بندوں کو عطا کرتا ہے‘‘ تو اس فہم میں لوگوں کے اندر تفاضل پایا جاتا ہے اور یہ اللہ کی تفاوت دین کی وجہ سے ہوتا ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے فتاوی میں لکھا ہے(۲۴۵/۱۳): ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالی اپنے متقی اور نیک بندوں کے سینوں کو اس کی ناپسند کردہ اشیاء سے اپنے دلوں کو پاک کرنے اور اس کی پسند کردہ اشیاء کی اتباع کے ذریعے کھولتے ہیں اسطرح کے دوسروں کے سینے ایسے نہیں کھلتے اور یہ اسی طرح ہے جیسے علیؓ نے فرمایا: سوائے کتاب اللہ کی اس فہم کے جو اللہ اپنے بندوں کو عطا کرتا ہے، اور یہ بھی مأثور ہےـ’’جس نے اپنے علم پر عمل کیا اللہ اسے وہ علم عطا کرتے ہیں جو پہلے اس کے پاس نہ تھا‘‘ اور قرآن نے بھی اس امر پر متعدد جگہ دلالت کی ہے: ((جو انہیں نصیحت کی جا رہی ہے اگر یہ اس پر عمل کر لیں تو یہ ان کیلئے بہتر ہے اور زیادہ استقامت کا باعث ہے، اس صورت میں ہم انہیں اپنے پاس سے عظیم اجر سے نوازیں گے اور انہیں سیدھے راستے والی ہدایت نصیب کریں گے)) [النساء:۶۶،۶۷،۶۸] پھر لکھتے ہیں: اللہ نے اس بات کی خبر دے دی کہ جو اس کو ناپسند ہے اس کی اتباع اسے علم اور ہدایت سے پھیر دے گی، جیسے فرمایا: ((تو جب وہ بھٹکے اللہ نے ان کے دلوں کو بھٹکا دیا)) [الصف:۵] اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے اس کے کلام یا اس کے رسول کے کلام کی خاص سمجھ جو بندے کو عطا کی جاے یہ  اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی اتباع کے بقدر ہوتا ہے اسی وجہ سے امام شافعی ؒ کے بارے میں آتا ہے کہ  انہوں نے رسول کے اس قول سے ایک ہزار فوائد کا استخراج کیا، وہ قول جو آپ نے ایک بچے کو کہا تھا: ((اے ابو عمیر،نغیر کا کیا بنا؟))اور یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عطا کرے اور اللہ بڑے وسیع علم والا ہے۔ اور اگر انہوں نے اپنے کلام سے مراد یہ لیا ہو کہ ہم کلام اللہ اور کلام رسول سے اس کے ظاہر کے خلاف استنباط کریں تو یہ اہل بدعت جیسے باطنیہ، رافضیہ، غالی صوفیاء اور دیگر کا مذہب ہے، مثال کے طور پر باطنیہ جو کہ رافضیہ میں سے ہی ہیں اللہ تعالی کے اس فرمان: ((ابو لہب کے ہاتھ ہلاک ہوگئے اور وہ بھی ہلاک ہو گیا)) کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد ابو بکر ؓ اور عمر ؓ ہیں اور اسی طرح اللہ کے اس فرمان: ((کفر کے ائمہ کے ساتھ قتال کرو)) سے مراد طلحہ اور زبیر ؓ ہیں اور اللہ کے اس قول: ((اور وہ درخت جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے)) کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد بنو امیہ ہیں، اور فلاسفہ ملائکہ اور شیاطین کی تفسیر یوں کرتے ہیں کہ ان سے مرد نفسانی قوتیں ہیں اور لوگوں سے جو مثالیں دے دے کر آخرت کے وعدے کیے گئے ہیں وہ صرف اس لئے ہیں کہ نفس کو موت کے بعد کیا کیا کچھ  جیسے لذت و عذاب وغیرہ چکھنا پڑے گا اور یہ سب آخرت کے حقائق کو محض ثابت کرنے کیلئے ہے۔

جہاں تک اہل سنت والجماعت کی بات ہے جو کہ فرقہ ناجیہ اور مدد کردہ ہے تو وہ خلاف ظاہر اللہ اور اللہ کے رسول کے کلام کی تفسیر کے قائل نہیں ہیں مگر اس صورت میں کہ کوئی ایسے دلیل موجود ہوں کہ لفظ کا ظاہر مراد نہیں ہے اور جو آپ نے یہ بات کی کہ آپ کے بعض دوست یہ کہتے ہیں کہ قرآن کو باعتبار حروف ہی لیا جائے اور مثال یہ دی گئی کہ اگر اللہ کا ہاتھ مذکور ہے تو ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کو اسی طرح قبول کریں اور اس کی تأویل نہ کریں کی اس سے مراد معنی مجازی ہے جو کہ اللہ کہ قوت پر دال ہے، تو انہوں نے جو ذکر کیا کہ کتاب و سنت کے ظاہر کو لیا جائے تو یہی صحیح ہے ہم اس کی تأویل کرتے ہوئے معانی بعیدہ نہیں لیتے کیونکہ یہ تأویل جو آپ نے ذکر کی یہ ایک قسم کی تحریف ہے کیونکہ یہ کلام کو بغیر دلیل کے اس کے ظاہر سے ہٹانا ہے اور کلام کی تحریف بھی یہی ہوتی ہے اور ہم پر واجب یہ ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسول کے بارے میں اس نے ہمیں جو کچھ بتلایا ہے اس کا اقرار کریں اس پر ایمان لائیں بغیر کسی تحریف، تعطیل، تمثیل اور کیفیت کے، پس ہم ایمان لاتے ہیں اس پر جو اللہ نے اپنے لئے یا اس کے رسول نے اس کیلئے ثابت کیا ہو اس پر بغیر کسی تمثیل کے، اس کو منزہ سمجھتے ہوئے بغیر کسی تعطیل کے، اور اسماء اللہ اور اس کی صفات میں یہی عقیدہ ہے جو سلف اور متقدمین جن میں صحابہ، تابعین اور دیگر ائمہ دین ہیں ان کا اختیار کردہ تھا، بس اسی کو تھامے رکھیں اور مضبوطی سے اسے ہی پکڑیں کیونکہ امت کے آخر کی اصلاح بھی اسی سے ہونی ہے جس سے اس کے اول کی اصلاح ہوئی


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں