×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / احکام میت / قبر کی اطراف پر دائرہ بنانے کا حکم

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2592
- Aa +

قبر کے گرد پتھروں سے دائرہ بنانے کا یا اس پر لکڑی، لوہا یا ٹہنی رکھ کر نشانی لگانے کا کیا حکم ہے؟ یہ اعتقاد کیلئے نہیں بلکہ صرف یہ یاد رکھنے کیلئے کہ یہ فلاں کی قبر ہے

حكم تحويط جوانب القبر

جواب

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہیں۔

اہل علم کا قبر پر نشان لگانے کے بارے میں اختلاف ہے جس میں متعدد اقوال ہیں: جمہور علماء کا مذہب تو یہی ہے کہ قبر پر کوئی پتھر ، لکڑی ، ٹہنی یا کوئی اور چیز رکھ کر نشان لگانا جائز ہے، یہی مذہب مالکیہ ، حنابلہ اور حنفیہ کی ایک جماعت کا ہے جبکہ شافعیہ کا کہنا ہے کہ یہ مستحب ہے دلیل ابو داؤد کی روایت ہے  جو کہ مطلب سے مروی ہے، کہ جب عثمان بن مظعون کو دفن کیا گیا نبی نے اس کے سر کے قریب ایک پتھر رکھ دیا اور فرمایا: ((مجھے اس سے اپنے بھائی کی قبر کا پتہ رہے گا اور میرے اہل میں سے جو مر گیا اسے اس کے ساتھ دفن کروں گا)) ابوداؤد نے یہ روایت مطلب بن عبد اللہ بن حنطب عمن لم یسمہ من  الصحابہ کے طریق سے ذکر کی ہے یعنی صحابی مذکور نہیں ہیں، لیکن یہ جہالت مقبول ہے کیوں کہ صحابہ سارے کے سارے عادل ہیں، اور اس حدیث کے لینے میں کوئی حرج نہیں، حافظ ابن حجر نے اس کے بارے میں کہا ہے: اس کی سند حسن ہے اس میں کثیر بن زید کے علاوہ کوئی نہیں جو کہ مطلب سے حدیث روایت کر رہے ہیں اور وہ بھی صدوق ہیں، باقی رہی حنفیہ کی بات تو ان کے ہاں قبر پر نشان لگانا مکروہ ہے کیونکہ قبر پر لکھنے کے بارے میں ممانعت آئی ہے، راجح یہی ہے کہ اگر کوئی مصلحت ہو تو قبر پر نشان لگانا سنت ہے ورنہ جائز ہے۔

آپ کا بھائی/

خالد المصلح

15/11/1424هـ


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں