×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / احکام میت / علم {جاننے} کیلئے میت کا پوسٹمارٹم کرنا

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:3063
- Aa +

محترم جناب، السلام عليكم ورحمة الله وبركاته۔ علم {جاننے} کیلئے میت کے جسم کو کاٹنا اس کے پوسٹمارٹم کرنے کا کیا حکم ہے؟

حكم تشريح الأموات للعلم

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته۔

اس بارے میں آج کے دور کے علماء کا اختلاف ہے، دو اقوال ہیں:

پہلا قول: سیکھنے کیلئے میتوں کے اجسام کا پوسٹمارٹم جائز ہے۔

دوسرا قول: اہل علم کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ تعلیم کی غرض سے میت کے جسم کو کاٹنا جائز نہیں۔

مجھے تو یہی راجح معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ تعلیم کی غرض سے ہی ہو میت کے جسم کو کاٹنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں میت کی اہانت ہے اور وہ اللہ کی دی ہوئی کرامت کے خلاف ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ((اور ہم نے بنی آدم کو تکریم بخشی اور اسے پانی اور خشکی میں اٹھایا اور انہیں اچھی چیزوں میں سے رزق عطا کیا اور ان کو اپنی تخلیق کردہ بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی)) [الاسراء:۷۰]، اور دوسری وجہ ممانعت کی یہ کہ پوسٹمارٹم میں جسم کے اعضاء کو کاٹنا ہوتا ہے اور یہ مثلہ کی ایک صورت ہے جبکہ نبی نے تو قتال کے دوران دشمن کے ساتھ بھی مثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے مسلم میں بریدہ ؓ کی حدیث مذکور ہے کہ نبی نے فرمایا: ((اور مثلہ نہ کرو)) یہ میت کو کاٹنے اور اس کی صورت بگاڑنے کی ممانعت ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ میت کو کاٹنے میں اس کی صورت بدلنے اور بگاڑنے میں اس حرمت کر پامال کرنا لازم آتا ہے جو شریعت نے موت کے بعد میت کو بخشی ہے، مسند احمد میں حضرت عائشہ ؓ کی حدیث مذکور ہے: ((میت کی ہڈی توڑنا ایسے ہی ہے جیسے زندہ کی ہڈی توڑنا)) امام ابو داؤد نے بھی یہ روایت ذکر کی ہے اور حافظ ابن حجر نے کہا ہے کہ یہ حدیث مسلم کی شرط کے مطابق ہے، اس کی سند میں سعد بن سعید الانصاری ہیں جن کی احمد اور ابن معین نے تضعیف کی ہے اور انکے بھائی یحیی نے بیہقی کے ہاں ان کی متابعت بھی کی ہے، امام نووی نے خلاصہ میں لکھا ہے: "بیہقی نے یحیی بن سعید الانصاری کے طریق سے یہ حدیث صحیح سند کے ساتھ روایت کی ہے"

مجھے راجح یہ معلوم ہوتا ہے کہ میت کو کاٹنا جائز نہیں ہے، جہاں تک مسلمان کی بات ہے تو وہ اس وجہ سے کہ زندہ ہو یا مردہ اس کو حرمت حاصل ہے اور جہاں تک کافر کی بات ہے تو نبی نے اس کے مثلے سے منع فرمایا ہے اور یہ بھی ہے کہ یہ آپ کے اس فرمان کے تحت داخل ہو جائے گا: ((میت کی ہڈی توڑنا ایسے ہی ہے جیسے زندہ کی ہڈی توڑنا))، اور اگر شدید ضرورت ہو تو کافر کی میت کا پوسٹمارٹم کرنا مسلمان میت کی نسبت اہون ہے خاص طور پر اگر موت سے پہلے اس نے اجازت دی ہو، واللہ اعلم


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں