×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / ​زکوٰۃ / فیکٹری کی زکوٰۃ نکالنے کی صورت

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2496
- Aa +

جناب من خالد المصلح حفظہ اللہ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اما بعد۔۔۔ میں ایک مصنوعاتی اشیاء بنانے والی فیکٹری کا مالک ہوں جس کا کل سرمایہ ڈائرکٹ فیکٹری کے نام پر کچھ نقد اور کچھ ادھار مال سے ہے ، اوراس کے مالکوں نے اپنے ذاتی ناموں پر کچھ قرضہ بھی لیا ہے ، اور تمام سرمایہ کچھ مشینوں اور آلات اور سرمایہ کی مضبوطی کے لئے خام مواد خریدنے اور کام کے کچھ اخراجات میں خرچ ہوگیا ہے ، فیکٹری کو شروع شروع میں تو بہت گھاٹا اٹھانا پڑا لیکن پھر آہستہ آہستہ پرافٹ ہونے لگا، ہر سال کے آخری مہینے ذی الحجہ میں اسٹاک کا جائزہ پورا ہو جاتا ہے چاہے وہ خام مواد ہو یا مکمل طور پر تیارشدہ پراڈکٹ ہو ، لہٰذا اب میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ اس فیکٹری کی زکوٰۃ کیسے نکالیں؟ اللہ تعالیٰ آپ کی عمر میں برکت دے اور آپ کو بے حد جزائے خیر دے

كيفية إخراج زكاة المصنع

جواب

حمد وثناء کے بعد۔۔۔

وعلیکم السلام ور حمۃ اللہ وبرکاتہ۔

جہاں تک آپ کا فیکٹری کی زکوٰۃ نکالنے کے بارے میں سوال ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح صرف عمارات ، آلات ، سازوسامان اور ٹرانسپورٹ پر زکوٰۃ نہیں آتی اس طرح نفسِ فیکٹری میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی یعنی فیکٹریوں کی زکوٰۃ تو اس کی آمدنی اور پرافٹ پر آتی ہے بشرطیکہ جب وہ نصاب تک پہنچے اور ان پر پورا سال گزرجائے ، یہی جمہور علماء کا مذہب ہے ، اور انٹرنیشنل اسلامی فقہی اجتماع {مجمع الفقہ الاسلامی} سے بھی یہی فتوی صادر ہوا ہے ۔

اور جہاں تک خرچ کردہ قرضوں (یعنی وہ اموال جن کا قرضہ مشینوں اور آلات کے خریدنے میں پورا ہوچکا ہے) اب چاہے وہ فیکٹری کے نام سے ہوں یا پھر اس کے مالکوں کے ناموں سے ہوں تو بالاتفاق اس میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی جب قرضہ میں سے سال کے گزرنے سے پہلے ان کو خرچ کیا جائے ، البتہ اگر قرض خواہ کے قبضہ میں اتنا عرصہ رہے کہ اس پر ایک سال گزر جائے تو اس میں بھی علماء کا ایک قول یہ ہے کہ قرض خواہ پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہے اس لئے کہ جس مال میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے اس میں کمی کردی جاتی ہے ۔

اور جہاں تک خام مواد کی بات ہے (وہ شروع کا مواد جن سے تیارشدہ سامان ترکیب پاتا ہے) جیسا گاڑیوں کے لئے لوہا اور عمارات وغیرہ وغیرہ، اس میں اکثر فقہاء کے نزدیک زکوٰۃ واجب ہے ، اور یہ اس کی قیمت متعین کرنے اور زکوٰۃ کے تحت اس کی قیمت اس کو درج کرنے سے ہوگا، اس لئے کہ تجارتی سامان ہے، اس لئے کہ اس کو بنانے کے بعد اس کو بیچنے کے لئے خیریدا گیا ہے۔

اہل علم کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ اس میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے اس لئے کہ یہ بیع کے لئے نہیں بنائی گئی بلکہ یہ تو تصنیع کے لئے بنائی گئی ہے، اور ان دونوں اقوال میں یہی أقرب الی الصواب قول ہے ۔

رہی ان سٹاک کردہ پراڈکٹس کی جن کو مارکیٹ کی ضرورت کے تحت سٹاک کیا گیا ہے اور ان پر سال نہیں گزرا تو ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی اس لئے کہ زکوٰۃ کے وجوب کے لئے سال کا گزرنا شرط ہے ، جبکہ اس پرسال نہیں گزرا ، لہٰذا جب اس پر سال گزرے گا تو اس پر مارکیٹ کی قیمت کے بقدر زکوٰۃ واجب ہوگی ، پھر چاہے تو عام قیمت سے بڑھا دے یا گھٹا دے ۔

لہذا فیکٹری کی زکاۃ والے مسئلے کا خلاصہ یہ ہے کہ زکاۃ صرف فیکٹری کے منافع اور اس میں تیار شدہ مصنوعات پر ہوگی جس کو سٹور کیا جاتا ہو اور سال بھی گزر جائے، اور اس زکاۃ کا مقدار ۵۔۲فیصد کے اعتبار سے ہوگا۔ واللہ تعالی اعلم۔

اللہ ہم سب کو خیر کی توفیق دے۔

رکن دار الافتاء، شہر قصیم

أ.د خالد بن عبدالله المصلح

16 / 5 / 1436 هـ  


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں