×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / ​زکوٰۃ / زیب وزینت کے لئے تیارکردہ سونے کی جیولری میں زکوٰۃ کا حکم

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2823
- Aa +

کیا زیب و زینت کے لئے تیارکردہ سونے کی جیولری میں زکوٰۃ وا جب ہے؟

هل تجب الزكاة في الذهب المعدِّ للزينة؟

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:

جی ہاں بالکل ذخیرہ شدہ سونے میں زکوٰۃ واجب ہے؟ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور جو لوگ سونا چاندی ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے تو انہیں دردناک عذاب کی بشارت سنادو کہ قیامت کے دن اسی سونا چاندی کو آگ پر تپایا جائے گا اور پھراس سے ان کی پیشانیوں،  پہلؤوں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا (اور ان سے کہا جائے گا) یہی ہے تمہارا جمع کردہ مال لہٰذا اب اپنے جمع کردہ مال کا مزہ چکھ لو‘‘ {التوبۃ: ۳۴،۳۵

باقی رہی بات ان جیولری کی جو استعمال میں ہوتی ہیں تو اس کے بارے میں اماں عائشہؓ سے مروی ہے کہ: ’’زیورات میں کوئی زکوٰۃ نہیں‘‘۔ اور جمہور علماء کا بھی اس میں یہی مذہب ہے کہ جو سونا پہننے اور استعمال کے لئے ہوتا ہے تو اس میں کوئی زکوٰۃ نہیں ، یہ جمہور علماء کا قول ہے ۔

دوسرا قول یہ ہے کہ چاہے پہننے والا سونا ہو یا زیورات کے لئے تیارکردہ سونا ہو بہر حال اس میں زکوٰۃ واجب ہے ، یہ امام ابوحنیفہ ؒ کا مذہب ہے ، اور اس قول کو اور بھی کئی فقہائے کرام نے اختیار کیا ہے اور ان حضرات کا استدلال اس حدیث سے ہے جس میں آیا ہے کہ ایک عورت خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئی جس کے ہاتھوں میں دو موٹے موٹے کنگن تھے تو اللہ کے رسولنے ان کو دیکھ کر دریافت فرمایا: ’’کیا تم اس کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو‘‘ اس عورت نے کہا: ’’نہیں‘‘، اللہ کے رسولنے ارشاد فرمایا: ’’کیا تم اس بات کو پسند کرتی ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ان دوکنگنوں کے بدلے آگ کے دوکنگن پہنادے‘‘ اس عورت نے یہ سن کر کنگن نکال کرپھینکے اور ان کو صدقہ کردیا۔

اس حدیث میں موضعِ استدلال (أتحبین أن یسوّرک اللہ بھما سوارین من نار؟) ہے یعنی کیا تم اس بات کو پسند کرتی ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس کے بدلے میں آگ کے دوکنگن پہنادے؟ اس حدیث کو امام احمد اور اصحابِ سنن نے روایت کی ہے ، لیکن اس حدیث کی سند ضعیف ہے اس لئے جمہور علماء نے اس حدیث کو دلیل نہیں بنایا ، لیکن صحیح قول کے مطابق یہ اس بات سے بعید ہے کہ یہ حکم سونے میں زکوٰۃِ معروفہ کے بارے میں ہو جس کے بارے میں اللہ کے رسول نے یہ ارشاد فرمایا: ’’ہر بیس مثقال میں نصف مثقال ہے‘‘۔ یہ حکم واجب مقدار کے بیان کے لئے ہے ، جبکہ حدیث ِ بالا میں اس عورت نے اپنے سارے کنگن نکال پھینکے ، اگر یہ اس درجہ واجب ہوتا تو اللہ کے رسولاسے ضرور وضاحت سے بیان فرماتے اور اس عورت کو اپنا سارا مال نکالتے وقت ایسا نہ چھوڑتے۔

بہرکیف ! حاصل یہی کہ اس حدیث کی سند میں محدثین نے کلام کیا ہے ، باقی جمہور کا قول زیادہ أقرب الی الصواب ہے کہ زیورات میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی ، اسی لئے کہ عمومات اماں عائشہؓ کی حدیث کی وجہ سے مستثنیٰ ہیں ، اور رہی بات باقی وارد شدہ روایات کی جن میں زکوٰۃ کے وجوب کا حکم ہے تو اگر اس میں زکوٰۃ واجب ہوتی تو اللہ کے رسولاسے ضرور پوری وضاحت وصراحت کے ساتھ بیان فرماتے تاکہ کسی قسم کا کوئی اشکال و التباس باقی نہ رہے ۔

لب لباب یہ کہ راجح قول کے مطابق زیورات میں کوئی زکوٰۃ نہیں ، باقی اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے ۔

اگر اس پر کئی سال بھی گزر جائیں لیکن یہ ذخیرہ اندوزی کے لئے نہ ہو بلکہ پہننے کے لئے ہو تو اگرچہ اس کو پہنا بھی نہ ہو تو پھر بھی یہ سونا ہی شمار کیا جائے گا اور اس میں زکوٰۃ نہیں ہوگی ، لیکن اگر وہ اسے استعمال نہیں کر رہی تھی اور نہ اس کے دل میں اس کے استعمال کا کوئی خیال پیدا ہوا ہے بلکہ اسے محض اپنی ضرور ت کے تحت سنبھال کر رکھا ہے یا ویسے ہی اپنے پاس رکھا ہے تو اس صورت میں اس پر زکوٰۃ واجب ہے ، اس لئے کہ اس صورت میں یہ پہننے کے لئے تیاررکردہ صورت سے بدل کر خزانہ کی شکل میں تبدیل ہوجائے گا اور اس میں زکوٰۃ واجب ہے۔


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں