×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / ​زکوٰۃ / رہائشی زمین پر زکوٰۃ کا حکم

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2564
- Aa +

کیا رہائشی زمین پر زکوٰۃ واجب آتی ہے؟

هل تجب الزكاة على قطعة الأرض السكنية؟

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:

وہ زمینیں اور اموال جن کی زکوٰۃ تجارتی سامان کی وجہ سے نکالی جاتی ہے ، اور اس سے مراد وہ سامان ہے جو تجارت کے لئے پیش کی جاتی ہے تو اس میں ملکیت دیکھی جاتی ہے کہ آیا وہ شخص تجارت کی نیت سے اس کا مالک بنا ہے یا نہیں ؟ اگر وہ تجارت کی نیت سے اس کا مالک بنا ہے تو اس صورت میں سال گزرنے پر اصل میں زکوٰۃ واجب آئے گی ، اور اگر کسی اور مصلحت یا ضرورت کے تحت اس کا مالک بنا پھر بعد میں اسے تجارت کے لئے پیش کیا یا پھر میراث اور ہبہ کی طرح اس کا غیر اختیاری طور پر مالک بنا ہے تو پھر اس میں زکوٰۃ واجب نہیں آتی اگرچہ بعد میں اس سے تجارت ہی کیوں نہ کرلے ۔

لہٰذا سب سے پہلے اس چیز کو دیکھا جائے گا جس میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے کہ اس تجارتی سامان میں ملکیت کے وقت اس کی نیت کیا ہے ، اگروہ تجارت اور کمائی کی نیت سے اس کا مالک بنا ہے تو سال گزرنے پر اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی اور یہ سال کا گزرنا اس اصل مال پر ہوگا جس سے اس نے وہ تجارتی سامان خریدا ہے ، اور اگر اس نے تجارت کی نیت نہیں کی ، بلکہ اس کی نیت کمائی تا منفعت ہو ، یا پھر اس نے خرید تو لیا لیکن خریدتے وقت اس میں تصرف کا اسے کچھ پتہ نہیں تھا کہ وہ اس کا کیا کرے گا، جیسا کہ بعض لوگوں کا زمینیں خریدتے وقت حال ہوتا ہے ، کہ جب زمین وغیرہ خریدتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اب تو میں اسے خرید رہا ہوں لیکن چند سال بعد دیکھوں گا کہ اس میں کیا کرنا ہے، تو اس صورت میں راجح قول کے مطابق کوئی زکوٰۃ واجب نہیں آتی۔

اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اس میں زکوٰۃ واجب ہوگی تواس صورت میں اصل مال پر سال گزرنے کو دیکھا جاتا ہے، یعنی اگر میرے پاس مثال کے طور پر پچاس ہزار رقم ہو اور میں نے اس رقم سے تجارت کے لئے کوئی سامان یا زمین خریدلی ، اور پھر میرے حساب سے اس پچاس ہزار پر تین ماہ گزر گئے ، پھر میں نے اس سے تجارت کے لئے زمین خریدلی تو میں اس کی زکوٰۃ کب نکالوں گا؟ بعض لوگ زمین یا سامان کے خریدنے کے وقت سے سال کو شمار کرنا شروع کر دیتے ہیں ، جبکہ ایسا غلط ہے ، اس لئے کہ مال موجود ہے ، اور اس صورت میں وہ نقد مال سے زمین کی طرف منتقل ہوگیا ہے ، یا نقد مال سے سامان کی طرف منتقل ہوگیا ہے ، اس اعتبار سے اس کے حکم میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی ، بلکہ جب وہ زمین میری ملکیت میں آئے گی تب سے میں زکوٰۃ شمار کروں گا نہ کہ صرف خریدنے سے ، پس میں زمین خریدنے کے بعد نو ماہ شمار کروں گا یہاں تک کہ سال پورا کرلوں ، اور یہ سال کا پورا ہونا اصل مال پر ہوگا اور میں اس کی زکوٰۃ نکالوں گا اگر چہ میں زمین اثنائے مدت میں بیچ بھی ڈالوں ، اور اگرچہ وہ زمین نقد مال میں ہی کیوں نہ منتقل نہ ہوجائے میں تو اصل مال کو دیکھ کر اس کی زکوٰۃ نکالوں گا، نہ کہ اس کو دیکھتے ہوئے کہ یہ نقدی سے زمین کی طرف منتقل ہوگیا ہے ، اور پھر زمین سے نقدی کی طرف ۔

اور اگر بغیرخریدے وہ زمین کا مالک بنتا ہے ، مثلا اسے کوئی ہبہ کردیتا ہے یا اسے وراثت میں مل جاتی ہے تو ایسی صورت میں اس پر کب زکوٰۃ آئے گی؟

اس میں بعض علماء فرماتے ہیں کہ جب وہ اس سے تجارت کی نیت کرے گا تو اس کی نیت کے وقت سے ہی سال شروع ہوجائے گا۔

بعض علماء فرماتے ہیں کہ اس میں زکوٰۃ واجب نہیں ہے ، کہ ایسی صورت میں مالک بننے سے بھی نیت کا اعتبار نہیں کیا جاتا، بلکہ نیت کا اعتبار تب کیا جاتا ہے جب وہ خود اس کا مالک بنتا ہے ، جبکہ اس صورت میں (ہبہ اور وراثت کی صورت میں) وہ غالب طور پر مالک نہیں بنتا، بلکہ غالب طور پر وہ مالک تب بنتا ہے جب وہ اسے خود خریدتا ہے ، لہٰذا ہبہ اور وراثت کی شکل میں مالک بننے کے بعد اگر وہ اسے بیچنے کی نیت بھی کر دے تب بھی اس پر اس کوئی زکوٰۃ نہیں آئے گی، یہی جمہور علماء کا قول ہے ۔


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں