×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / ​زکوٰۃ / دینِ اسلام کا پرچار کرنے والے ٹی وی چینل کو زکوٰۃ دینے کا حکم

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:3090
- Aa +

دینِ اسلام کا پرچار کرنے والے ٹی وی چینل کو زکوٰۃ دینے کا کیا حکم ہے؟

دفع الزكاة لقناة تلفزيونية تدعو للإسلام

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

بتوفیقِ الٰہی آپ کے سوال کا جواب پیشِ خدمت ہے:

یہ مسئلہ ان آٹھ مصارف سے باہر ہے جن کے بارے میں قرآن کریم میں نص وارد ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے مصارف کو بڑی صراحت و وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے: ﴿بے شک زکوٰۃ فقراء ، مساکین، زکوٰۃ پر کام کرنے والوں ، نئے اسلام لانے والوں کی دلجوئی ، غلاموں ، قرضداروں ، اللہ کے راستے میں چلنے والوں مجاہدینِ اسلام اور راہگیر مسافروں کے لئے ہے یہ اللہ کی طرف سے فرض ہے اور اللہ بہت علم والا اور بہت حکمت والا ہے﴾ {التوبۃ: ۶۰} لہٰذا اس اعتبار سے زکوٰۃ کے مصارف آٹھ ہیں ، اس لئے زکوٰۃ کی ادائیگی میں ان آٹھ مصار ف سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے ۔

اوراللہ کے اس ارشاد (وفی سبیل اللہ) کے بارے میں اہل علم نے وسعت سے کام لیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سے مراد تمام خیر کے کام ہیں ، اور یہ اہل علم کی ایک بڑی جماعت کا قول ہے ، لیکن بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد (وفی سبیل اللہ) سے مراد صرف جہاد ہے ، اور یہ جمہور علماء اور محققین علماء کا قول ہے ۔

لیکن پھر جہاد کے معنی میں ان سب کا آپس میں اختلاف ہے کہ اس جہاد کے تحت جہاد بالعلم بھی داخل ہے یا نہیں؟ اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ جہاد بالعلم میں چونکہ شریعت کو وضاحت سے بیان کرنا اور اللہ تعالیٰ کی طرف بلانا ہوتا ہے اس لئے وہ بھی (فی سبیل اللہ ) کے تحت داخل ہے ۔

اسی مذکورہ بالا مسئلہ پر قیاس کرتے ہوئے دینِ اسلام کا پرچار کرنے والا کوئی بھی ٹی وی چینل یا ریڈیو سٹیشن یا کوئی بھی سبب اور ذریعہ ہو تو اس کو زکوٰۃ دینا جائز ہے ، اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد (و فی سبیل اللہ) کے تحت داخل ہے ، لہٰذا جب اس کے بارے میں خوب جانچ پڑتال اور چھان بین ہوجائے کہ وہ واقعی دینِ اسلام کی پرچار کرتا ہے تو بطورِتقویت و مدد ومعاونت کے اس کو زکوٰۃ دینا جائز ہے ، اور امید ہے کہ یہ اللہ کے ہاں زکوٰۃ شمار ہوگی


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں