×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / ​زکوٰۃ / قرّاء حضرات کو زکوٰۃ دینے کا حکم

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:3152
- Aa +

قرّاء حضرات کو ماہانہ تنخواہوں کی طرح زکوٰۃ دینے کا کیا حکم ہے؟

ما حكم دفع الزكاة كرواتب لمعلمي القرآن؟

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

بتوفیقِ الٰہی آپ کے سوال کا جواب پیشِ خدمت ہے:

اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے جو مصارف قرآن کریم میں ذکر کئے ہیں وہ یہ ہیں: ﴿بے شک زکوٰۃ فقراء، مساکین، زکوٰۃ پر کام کرنے والوں، نئے اسلام لانے والوں کی دلجوئی، غلاموں، قرضداروں، اللہ کے راستے میں چلنے والے مجاہدین اور راہگیر مسافروں کے لئے ہے﴾ {التوبۃ: ۶۰} یہ وہ آٹھ مصارف ہیں جن کو زکوٰۃ دینا جائز ہے ۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا طلبِ علم اور اس سے تعلق رکھنے والے باقی شعبے مثلا حفظِ قرآن، حفظِ سنت، تعلیمِ سنت، تعلیمِ قرآن اور باقی تمام علومِ شرعیہ اس آیت کے تحت داخل ہیں یا نہیں؟ علماء کی ایک جماعت کے نزدیک یہ سب شعبے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے تحت (وفی سبیل اللہ) کے تحت داخل ہیں اس لئے کہ یہ سب بھی اللہ کے راستے میں جہاد کی طرح ہیں ، کہ ہر وہ کام جو حفظِ دین کا وسیلہ ہو تو وہ اللہ کے راستے کوشامل ہے، پھر چاہے وہ دشمنوں کے ساتھ قتال ہو، یا چاہے دین وشریعت کی حفاظت و صیانت کے لئے ہو سب برابر ہیں اورفی سبیل اللہ کے تحت داخل ہیں۔

پس اہل علم کی ایک بڑی جماعت جنہوں نے فی سبیل اللہ سے جواز کا استدلال کیا ہے تو ان کے نزدیک سبیل اللہ میں علمِ شرعی کے تمام اقسام شامل ہیں ۔

 لہٰذا اسی پر قیاس کرتے ہوئے علمی مدارس کے اساتذہ اور علمی اداروں کے قائم کرنے والوں کو زکوٰۃ دینا جائز ہے، اور اس دور میں یہ اختیار اور بھی مستحکم ہوجاتا ہے کہ لوگ اس دور میں زکوٰۃ کو طرح طرح کی جگہوں میں خرچ کرتے ہیں ، خاص طور پر زکوٰۃ اور خیرات وصدقات میں کہ ان کو غیرعلمی اداروں میں دیا جاتا ہے ، کہ لوگ پریشان حالوں کی مدد ومعاونت کرنے میں بڑی چستی دکھاتے ہیں کہ ان کے لئے کنؤیں کھودتے ہیں ، اور یتیم خانوں اور پُوَر ہاؤسز وقف کرتے ہیں، لیکن علمی اداروں پر بہت کم لوگ خرچ کرتے ہیں ، لہٰذا ہم لوگوں سے یہی کہتے ہیں کہ علم ، طلبِ علم ، اہل علم ، اور علم میں مشغول رہنے والوں پر زکوٰۃ کا مال صرف کیا جائے ، اس قول میں وسعت ہے اوریہ اہل علم کی ایک بڑی جماعت کا قول ہے ۔

لیکن مجھے شیخ عبدالعزیز اور شیخ عثیمین رحمہمااللہ کا ایک فتوی یاد آگیا جس میں یہی معنی پایا جاتا ہے کہ علمی حلقوں پر زکوٰۃ کا مال صرف کرنا جائز ہے ، بشرطیکہ جب ان کا کوئی اور ذریعۂ آمدن نہ ہو، جواز کے اعتبار سے شیخ عثیمینؒ کے قول میں تو تھوڑا بہت تذبذب ہے لیکن شیخ عبدالعزیزؒ کا قول بالکل صاف اور بے غبار ہے ۔


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں