×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / ​زکوٰۃ / تجارت گاہوں کی زکوٰۃ کو شمارکرنا

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2376
- Aa +

ایک شخص کے پاس سُپر مارکیٹ ہے ، اور تمام سال کے سامان کوگننے کے بعد اس کی زکوٰۃ ادا کرلی ، اب سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کرنا کافی ہوجائے گا؟ یا پھر وہ سال بھر جن پراڈکٹس کو بیچتا رہا ہے اس کی زکوٰۃ نکالے گا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ زکوٰۃ کو دوسرے ملک منتقل کرنے کا کیا حکم ہے؟

إحصاء زكاة المتاجر

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

بتوفیقِ الٰہی آپ کے سوال کا جواب پیشِ خدمت ہے:

تجارت گاہوں میں زکوٰۃ کو شمار کرنے کے دوپہلو ہیں:

ایک تو یہ کہ محل میں ان موجودات کو شمار کرنا جو تجارتی سامان ہے ، یعنی جو بیع کے لئے پیش کی گئی ہو اگرچہ اس کی صورت تبدیل کی گئی ہو ، اور اگر اس کا سامان تبدیل ہوگیا ہو تو پھر یہ مؤثر نہیں ہے ، اس لئے کہ اعتبار قیمت کا ہے نہ کہ تجارتی سامان کا اعتبار ہے ، لہٰذا موجودات کو شمار کیا جائے گا ، اس کے بعد جو حاصل ہو گا اس کی زکوٰۃ نکال لے ۔

لیکن یہ باقی رہے گا کہ کچھ چیزیں پھیر دی گئی ہیں ، اور جن چیزوں کو پھیر دیا گیا ہے تووہ سیال نقدی کی طرف پھیر دیا گیا ہے ، اب سوال یہ ہے کہ کیا اس سے وہ نیا سال ازسرنو شروع کرے گا؟

جواب:  نہیں، اس مجمل مال کے ساتھ اس کا ملانا ضروری ہے جس کی وہ زکوٰۃ نکال رہا ہے ، اگر اس جگہ کی آمدنی مثال کے طور پر ایک لاکھ ریال ہوں یا ایک لاکھ پونڈ ہوں یا کوئی بھی کرنسی ہو اور وہ اکاونٹ میں ہو یا لاکر میں یا اس کے علاوہ کسی اور چیز میں ہو تو اس مال کے ساتھ اس کو ملالے جس کی زکوٰۃ نکال رہا ہے ، اس لئے کہ موجودات کی زکوٰۃ تجارتی سامان میں سے ہے ، اور کمائی ہوئی نقدی پر اس بیع اور اس تجارت کے نفع کے ساتھ ۔

اور نقدی میں سے اس نے جو بیچا ہے اور وہ پھیر دیا گیا ہے تو وہ چلا گیا ہے اور اس پر سال نہیں گزرا، تو اس پر زکوٰۃ نہیں ہے جیسا کہ دفاتر اور بجٹ میں موجود ہوتا ہے جب اسے پھیر دیا جائے ، لیکن اگر وہ موجود ہے اور اس کو رکھا گیا ہے تو پھر اس کی زکوٰۃ ادا کرے ۔

رہی بات دوسرے سوال کی تو کیا زکوٰۃ کے مال کو دوسرے ملک لے جایا جاسکتا ہے یا نہیں ؟

جواب: زکوٰۃ کے مال میں اصل یہی ہے کہ زکوٰۃ اس کے اصل جگہ میں ہو اور اس کی دلیل صحیحین میں ابن عباسؓ کی حدیث ہے جس میں وہ آپ سے نقل فرماتے ہیں کہ آنحضرتنے حضرت معاذؓ کو یمن کی طرف بھیجتے ہوئے ان سے ارشاد فرمایا: ’’ان کو اس بات کی خبر دینا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے لی جاتی ہے اور ان کے فقیروں پر خرچ کی جاتی ہے‘‘۔

یہاں پر اس حدیث میں (أغنیاء ھم) سے بعض علماء یہ استدلال کرتے ہیں کہ اس سے مراد وہاں اس علاقے کے اغنیاء ہیں ، لیکن بعض اہل علم اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ (أغنیاء ھم) میں ضمیر مسلمانوں کی طرف لوٹتی ہے لہٰذا فقراء مسلمانوں پر خرچ کیا جائے گا اگرچہ وہ وہاں موجود نہ ہوں ۔

لیکن اصل یہی ہے کہ جہاں زکوٰۃ کا مال ہے وہیں زکوٰۃ دی جائے اس لئے کہ اس مال کے ساتھ وہاں کے لوگ متعلق ہیں اس لئے کہ اگر وہاں کے لوگ اس سے نفع نہیں اٹھائیں گے تو اس طرح کرنے میں ان کو ایک گونہ نقصان و اذیت دینا ہے اور ان کی ضرورت کے باوجود ان کے حق کو کسی اور جگہ منتقل کرنا ہے ۔

لیکن اگر ضرورت یا مصلحت کے پیشِ نظر زکوٰۃ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کی جائے جیسا کہ اگر کسی کودوسری جگہ اس سے اشد ضرور ت ہے یا اِن سے زیادہ اُن کو دینے میں مصلحت زیادہ ہے تو پھر اسی ضرورت یا مصلحت کے تحت اس کو منتقل کرنا جائز ہے وگرنہ تو اصل یہی ہے کہ زکوٰۃ کو اس کی اصل جگہ ادا کی جائے


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں