×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / ​زکوٰۃ / مالِ زکوٰۃ میں سے میت کے قرضے کی ادائیگی کا حکم

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2665
- Aa +

ایک عورت جس کا باپ وفات پاگیا ہے اوراس پر کافی قرضہ تھا ، اور اب وہ عورت اپنے مال کا زکوٰۃ ادا کرنا چاہتی ہے ، تو کیا اس کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اس زکوٰۃ میں سے اپنے باپ کا قرضہ پورا کرے؟

قضاء دَيْن الميت من الزكاة

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

بتوفیقِ الٰہی آپ کے سوال کا جواب پیشِ خدمت ہے:

جمہور علماء ، احناف ، شوافع اور حنابلہ کے نزدیک مالِ زکوٰۃ میں سے میت کا قرضہ اد ا کرنا جائز نہیں ہے ، اور ان کی دلیل ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کوقرضداروں کی طرف منسوب کیا ہے ، اور یہ اس میت کی طرف سے قرضہ کی ادائیگی میں موافق نہیں ہے ، اس لئے کہ یہاں قرضدار کی طرف سے خود اس کی ملکیت نہیں پائی جارہی۔

مالکیہ فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ زکوٰۃ کے مال میں سے میت کا قرضہ ادا کیا جا سکتا ہے اور انہوں نے آیت کے عموم سے استدلال کیا ہے اور زندہ آدمی کی طرف سے قرضہ کی ادائیگی پر قیاس کیا ہے (کہ جس طرح زندہ آدمی کی طرف سے قرضہ ادا کیا جاسکتا ہے اسی طرح میت کی طرف سے بھی) اس میں شوافع اور حنابلہ بھی ان کے ساتھ ہیں اور اسی قول کو شیخ الاسلام امام ابن تیمییہ ؒ نے اختیار کیا ہے۔

اور مجھے بھی یہی لگ رہا ہے کہ زکوٰۃ میں سے میت کا قرضہ ادا کیا جاسکتا ہے ، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ ان کے بارے میں فرض کی ہے نہ کہ ان کے لئے ، جیسا کہ ارشادباری تعالیٰ ہے: ﴿بے شک زکوٰۃ فقراء ، مساکین ، زکوٰۃ پر کام کرنے والوں ، نئے اسلام لانے والوں کی دلجوئی ، غلاموں ، قرضداروں ، اللہ کے راستے میں چلنے والے مجاہدین اور راہگیر مسافروں کے لئے ہے ، یہ اللہ کی طرف سے فرض ہے اور اللہ بہت علم والا بہت حکمت والا ہے﴾ {التوبۃ: ۶۰

شیخ الاسلام اما م ابن تیمیہ ؒ نے مجموع الفتاوی {۲۵/۸۰} میں اس آیت کی تعلیل کرتے ہوئے اس کے جواز کا فتوی دیا ہے ، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (والغارمین ولم یقل للغارمین) یعنی یہ نہیں کہا کہ قرضدار کے لئے بلکہ یوں کہا کہ قرضدار، اس لئے کہ قرضدار اس کا مالک نہیں ہوتا اسی پر قیاس کرتے ہوئے میت کے ورثاء اور باقی لوگوں کے لئے میت کی طرف سے قرضہ کی ادائیگی جائز ہے ۔

اور اگر وہ میت زکوٰۃ دینے والے کا کوئی رشتہ دار ہو تو یہ اس وقت اور بھی مستحکم ہو جاتا ہے ۔ باقی اللہ بہتر جانتا ہے ۔

آپ کا بھائی/

خالد المصلح

30/12/1424هـ


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں