حمد و ثناء کے بعد۔۔۔
اگر یہ مال مالکِ مکان کے قبضہ میں ہی ہے اور اس مال میں اسے کسی طرح بھی تصرف کا اختیار نہیں ہے تو اس صورت میں یہ مال اس کے پاس بطورِ ضمان کے پڑا ہے ، جو مال کرایہ دار سے ہلاک ہونا ممکن ہو تو اس کی زکوٰۃ بلاشک وشبہ کرایہ دار پر آئے گی نہ کہ مالکِ مکان پر اس لئے کہ وہ اس مال کا مالک ہی نہیں ہے ۔
البتہ اگر اس مال پر مالکِ مکان بطورِ قرض کے قبضہ کرتا ہے اور پھر اس مال میں اس کو ہرقسم کے تصرف کا اختیار بھی ہوتا ہے تو پھر یہ ایک قسم کا اجارہ ہو گیا کہ مالکِ مکان کرایہ دار کو اس کے بقدر مال دے دیگا، اور اس صورت میں سال گزرنے پر زکوٰۃ مالکِ مکان پر واجب ہوگی اور یہ مال اس کے اپنے مالِ زکوٰۃ کے نصاب کو کم نہیں کرے گا، باقی رہی کرایہ دار کی بات تو اہلِ علم کے نزدیک راجح قول کے مطابق اس صورت میں اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے ، لیکن جمہور علماء فرماتے ہیں کہ وہ اپنے بقیہ مال کے ساتھ ہرسال اس مال کی زکوٰۃ بھی ادا کرے گا۔ واللہ أعلم
آپ کا بھائی/
خالد المصلح
10/03/1425هـ