×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / ​زکوٰۃ / کیا میں زکوٰۃ کا مستحق ہوں ؟

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2876
- Aa +

ہمارے شہر میں یہاں ایک ملین پتی آدمی ہے جو اپنے علاقے والوں پر دریا کی طرح زکوٰۃ کے پیسے لٹاتا ہے ، ہر آدمی کے حصہ میں تقریبا ایک ہزار سعودی ریال آتے ہیں ، مجھے دو ہزار دو سو سعودی ریال ریٹائرمنٹ پنشن ملتی ہے ، اور میرے پاس ایک منزلہ فلیٹ ہے جس میں کچھ عصرِ حاضر کا سامان وغیرہ ہے جو میرے اور میری فیملی کے لئے کافی ہے ، اور میرے پاس ایک چھوٹی سی سادہ سی گاڑی بھی ہے ، بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ مجھ پر پورا سال گزر جاتا ہے اور میں قرضے تلے ڈوبا ہوتا ہوں، لیکن کچھ مالی صدقات کے اداروں کے ذریعہ میں اپنا قرضہ چکا لیتا ہوں ، یہ لگ بھگ میرے تفصیلی حالات ہیں ، لہٰذا اب جناب مآب سے میرا سوال یہ ہے کہ ان مذکورہ احوال کی بناء پر میرے لئے زکوٰۃ لینا جائز ہے؟

هل أنا مستحق للزكاة

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن کریم میں مستحقینِ زکوٰۃ کو ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے: ﴿بے شک صدقات فقراء، مساکین، صدقات پر کام کرنے والوں، نئے اسلام لانے والوں کی دلجوئی، غلاموں، قرضداروں، اللہ کے راستے میں چلنے والے مجاہدین، اور راہگیر مسافروں کے لئے ہیں، یہ اللہ کی طرف سے فرض ہے اور اللہ بہت علم والا بہت حکمت والا ہے ﴾ [التوبہ: ۶۰] اب اگر واقعی آپ پر قرضہ ہے اور آپ اپنا قرضہ خود نہیں چکا سکتے تو اپنے قرضے کی ادائیگی کے لئے آپ کے لئے زکوٰۃ لینا جائز ہے ،اور اگر ریٹائرمنٹ پنشن کے باوجود آپ کا گزر بسر نہیں ہو سکتا تو اس صورت میں آپ کے لئے اتنی زکوٰۃ لینا جائز ہے جس سے آپ اپنا قرضہ اور ضرورت پوری کرسکیں۔

اور اگر معاملہ اس طرح نہیں ہے جس طرح آپ کہہ رہے ہیں تو پھر آپ کے لئے زکوٰۃ لینا جائز نہیں ہے ، اور اب تک آپ نے اسطرح جو زکوٰۃ لی ہے تو وہ آپ کے لئے حرام ہے لہٰذا اس کو اس کے صحیح حقدار کو واپس پہنچادیں ، اس لئے کہ امام احمد اور اصحابِ سنن نے عبیداللہ بن عدی بن خیار سے روایت کی ہے کہ دو آدمی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور زکوٰۃ کی بابت سوال کیا ، آپ نے جب سرتاپا ان کو دیکھا تو ان کو مضبوط اور ہٹّا کٹّا پایا تو ارشاد فرمایا: "اگر تم چاہو تو لے لو وگرنہ اصل بات یہی ہے کہ زکوٰۃ میں کسی مالدار اور مضبوط کمائی پر قادر انسان کا حق نہیں ہے"۔ تہذیب الاسماء واللغات میں امام نوویؒ نے اس کی اسانید صحیح قراردی ہیں {۱/۲۹۱

آپ کا بھائی/

خالد المصلح

14/09/1424هـ


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں