×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / لباس اور زینت / گریجویشن ڈریس اور کیپ پہننے کا حکم

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2152
- Aa +

جناب مآب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اما بعد۔۔۔ ہم ایک ایسے انٹرنیشنل کالج سے تعلق رکھتے ہیں جس میں ہمارے پاس ہر نیشنلٹی کے طلباء پڑھتے ہیں ، اور اس سال ہم ایک گریجویشن سرمینی منانا چاہتے ہیں ، اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ آج کل ایک رواج چل پڑا ہے کہ ان جیسے موقعوں پر طلباء ایک خاص قسم کا لباس پہنتے ہیں جسے گریجویشن گاؤنز یا گریجویشن کیپ کہتے ہیں جو اکثر کالے رنگ کا ہوتا ہے اور بسا اوقات دوسرے رنگوں میں بھی ہوتا ہے ، یہاں ایک بات آپ مدّ نظر رکھیں وہ یہ کہ سعودی حکومت کی یونیورسٹیوں میں کالے رنگ کا چوغا اور سفید رنگ کا رومال معمول بہ ہے ، اب آپ سے سوال یہ ہے کہ ہمارے طلبائے کرام کے لئے اس اکیڈمک ڈریس پہنے کا شرعی کیا حکم ہے ، اس لئے کہ ہمارے پاس کچھ ایسے ملکوں سے بھی طلباء آتے ہیں جن کے ہاں یہ چوغا اور رومال استعمال نہیں کیا جاتا؟ اللہ تعالیٰ آپ میں برکت دے اور آپ کو جزائے خیر دے۔

لبس عباءة وكاب التخرج

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

 بتوفیقِ الٰہی آپ کے سوال کا جواب پیشِ خدمت ہے:

جہاں تک آپ کا اس گریجویشن ڈریس اور کیپ کے پہننے کا سوال ہے تو میں اس کے بارے میں یہ عرض کروں گا کہ اس لباس کے پہننے کے حکم میں اہل علم کا اختلاف ہے جن میں اکثر علماء کے نزدیک اس کا پہننا حرام ہے اور ان کی دلیل یہ ہے کہ یہ کافروں کا لباس ہے جس کے استعمال سے ان نصوصِ منہیہ میں داخل ہوگا جن میں کافروں کے چال ڈھال اور طور طریقے اپنانے سے منع کیا گیا ہے ، جیسا کہ امام احمد نے جید سند کے ساتھ عبداللہ بن مبارک سے روایت کی ہے کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا: ’’جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا تو وہ انہی میں سے ہوگا‘‘۔ اور بعض نے تو یہاں تک کہا ہے کہ یہ عیسائی پادریوں کا لباس ہے اس طرح اس لباس سے وہ دین سے دور ہوجائے گا کہ یہ یہود و نصاریٰ کے عبادت گزاروں کا یونیفارم ہے ۔

علماء کی دوسری جماعت کے نزدیک اس کے پہننے میں کوئی حرج نہیں اس لئے کہ یہ ایسا لباس نہیں رہا جس کے ساتھ صرف کفار خاص ہیں کیونکہ یہ ایک اکیڈمک اورعالمی یونیفارم بن گیا ہے جس میں قومی جنسیت ، دین اور ملک کا کوئی امتیاز نہیں ، اور اس طرح کے یونیفارم پہننے سے اور لوگوں میں عمومیت کی وجہ سے مشابہت نہیں ہوتی اور اس لئے بھی کہ کافر اس یونیفارم سے مسلمان سے جدا نہیں ہے ۔

باقی رہی یہ بات کہ یہ ایک عبادتی لباس ہے تو اس کے بارے میں مجھے اپنی بھرپور کوشش کے باوجود بھی کوئی مستند روایت نہیں ملی ۔

اسی طرح کا قول کسی اور کا بھی ہے جو یہ کہتا ہے کہ یہ یونیفارم اصل میں اندلس کی اسلامی یونیورسٹیوں میں استعمال کیا جاتا تھا ، مجھے اس کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے کہ یہ کافروں کا یونیفارم ہے اور اس کا کفار کی عبادتوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اس لئے اس کے پہننے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کیونکہ چیزوں کے استعمال میں جب تک ممانعت کی کوئی صراحتاََ دلیل نہ ہو تو اس کی اصل حلّت ہی ہے ، لیکن اس کے باوجود میرے نزدیک طلباء پر اس قسم کے یونیفارم پہننے کو لازم نہیں کرنا چاہئے اس لئے کہ اس کے بارے میں پیچھے علماء کا اختلاف ہم ملاحظہ کرچکے ہیں کہ اکثر علماء کے نزدیک یہ حرام ہے ۔

باقی اللہ بہترجانتا ہے۔ اللہ ہم سب کو خیر کی توفیق دے۔

رکن مجلس افتاء شہر قصیم

أ.د خالد بن عبدالله المصلح

12 / 5 / 1436هـ


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں