×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / لباس اور زینت / ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے اور پتلون {پینٹ] پہننے کا حکم

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:4470
- Aa +

ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے کا کیا حکم ہے؟ اور کیا اس میں پتلون بھی داخل ہے؟ اور کیا یہ بات صحیح ہے کہ جمہور علماء کے نزدیک اگر اس طرح کا لباس بغیر کسی تکبر کے پہنا جائے تو وہ جائز یا مکروہ ہے؟

ما حكم الإسبال؟ وهل يدخل في البنطال؟ وهل صحيح أن الجمهور على جوازه أو كراهته لغير خيل

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

 بتوفیقِ الٰہی آپ کے سوال کا جواب پیشِ خدمت ہے:

اسبال عربی لغت میں کسی چیز کو اوپر سے نیچے کی طرف لٹکانے کو کہتے ہیں ، اور یہاں اس سے مراد کپڑوں کا لٹکانا ہے ، اور اس کے بارے میں دو طرح کے نصوص وارد ہوئے ہیں ۔

پہلی قسم: ان میں وہ احادیث ہیں جن میں غرور و تکبر کی وجہ سے کپڑوں کو لٹکانے کی حرمت وارد ہوئی ہے ، انہی میں سے بخاری [۵۷۸۴] و مسلم [۲۰۸۵]میں وارد شدہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی حدیث ہے جس میں اللہ کے رسول ارشاد فرماتے ہیں: ’’جس نے غرور و تکبر سے اپنا کپڑا لٹکایا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف دیکھے گا بھی نہیں‘‘۔

اسی طرح امام بخاری [۳۴۸۵] وغیرہ نے حضرت ابن عمرؓ سے یہ بھی روایت کی ہے کہ اللہ کے رسولنے ارشاد فرمایا: ’’پہلے زمانہ میں ایک آدمی غرور و تکبر سے اپنا تہبند لٹکا کر چلتا تھا تو اللہ تعالیٰ نے اسے زمین میں دھنسا دیا اور وہ قیامت تک اسی طرح زمین میں دھنستا چلا جائے گا‘‘۔

اسی طرح بخاری [۵۷۸۸] و مسلم شریف [۲۰۸۷] میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت کردہ حدیث ہے کہ اللہ کے رسولنے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے غرور و تکبر سے اپنا ازار لٹکایا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھے گا بھی نہیں‘‘۔

دوسری قسم: ان میں وہ احادیث شامل ہیں جن میں غرور و تکبر کی قید کے بغیر مطلقا اس کی حرمت کا ذکر وارد ہوا ہے ، انہی میں سے بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہ ؓکی روایت کردہ حدیث ہے: ’’ٹخنوں سے نیچے جو بھی ازار ہوگا تو وہ آگ میں جلے گا‘‘۔ اسی طرح مسلم شریف [۱۰۶] میں حضرت ابوذر ؓ کی روایت کردہ حدیث ہے کہ اللہ کے رسولنے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تین بندوں سے بات نہیں کرے گا اور نہ ہی ان کی طرف کوئی التفات کرے گا اور نہ ہی ان کو پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا ، ان میں سے ایک غرور سے کپڑا لٹکانے والا ہوگا دوسرا احسان جتلانے والا اور تیسرا جھوٹی قسم کھا کر سودا بیچنے والا ہوگا‘‘۔

اب جب اس میں دو طرح کے نصوص وارد ہوئے ہیں تو اہل علم کا بغیر تکبر کے کپڑا لٹکانے کے حکم میں اختلاف ہے، پس جمہورعلماء میں سے مالکیہ ، شوافع اور حنابلہ وغیرہ کا مذہب یہ ہے کہ اسبال اس صورت میں حرام ہے جب یہ غرور و تکبر کی نیت سے ہو البتہ اگر اس نیت سے نہ ہو تو پھر مکروہ ہے ، اور ان میں بعض اس کی اباحت کا کہتے ہیں ، اور جن احادیث میں مطلقا اسبال سے نہی وارد ہوئی ہے تو انہوں نے ان احایث کو مقید پر محمول کیا ہے ۔

شیخ الاسلام نے شرح العمدہ {ص: ۳۶۶} میں لکھا ہے: ’’اکثر احادیث تکبر کے ساتھ مقید ہیں اس لئے انکو مطلق پر محمول کیا جائے گا، اور اس کے علاوہ باقی جتنی احادیث ہیں تو وہ اباحت پر باقی ہیں‘‘، اور نہی کی احادیث غالب اور گمان پر مبنی ہیں ۔

ان حضرات نے اللہ کے رسول کے اس ارشاد سے استدلال کیا ہے جو انہوں نے ابوبکر سے کہا تھا ، کہ ابوبکر ؓ نے اللہ کے رسولسے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میرے تہبند کا ایک حصہ لٹک جاتا ہے جبکہ میں اپنی طرف سے اس کا خیال رکھتا ہوں ، یہ سن کر آپنے ان سے فرمایا: "تم ان میں سے نہیں ہو جو اس کو تکبر کی وجہ سے لٹکاتے ہیں"۔ اسی طرح روایات میں آیا ہے کہ ابن مسعودؓ اپنا تہبند لٹکاتے تھے جب ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: "میری ٹانگیں پتلی ہیں اور میں لوگوں کو امامت بھی کرواتا ہوں اس لئے اپنے تہبند کو لٹکاتا ہوں" {رواہ ابن ابی شیبہ}۔

اور بعض علماء کے نزدیک ازار لٹکانا مطلقا حرام ہے، چاہے وہ تکبر کی وجہ سے ہو یا نہ ہو ، مطلق اور مقید نصوص پر عمل کرتے ہوئے ۔

لیکن میرے نزدیک جمہور کا قول زیادہ قرین قیاس اور أقرب الی الصواب ہے ۔

اور اسبال کے بارے میں جو روایات وارد ہوئی ہیں تو وہ صرف ازار کے ساتھ خاص نہیں ہیں ، بلکہ ہر اس لباس کے ساتھ خاص ہے جس کو انسان پہنتا ہے، اور اس کی تائید محارب بن دثار ابن عمرؓ کی حدیث کا راوی بھی کرتا ہے کہ: ’’جس نے تکبر سے اپنے کپڑوں کو لٹکایا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف بالکل التفات بھی نہیں فرمائیں گے‘‘۔ صحیح بخاری [۵۹۷۱] میں ہے کہ شعبہ نے محارب سے پوچھا کہ کیا انہوں نے اس کا ازار ذکر کیا تھا؟ محارب نے کہا: نہیں، کسی قمیص یا تہبند کو خاص نہیں کیا ۔

اس سے یہ معلوم ہوا کہ اس میں ازار وغیرہ سب شامل ہیں ، اور اس کے بارے میں بیشتر روایات وارد ہوئی ہیں جن میں سے اصحاب سنن ابودؤد و نسائی اور ابن ماجہ نے بھی ابن عمرؓ کی مرفوع حدیث روایت کی ہے: ’’تہبند ، قمیص اور عمامہ میں جو تکبر سے اسبال کرے گا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف التفات بھی نہیں فرمائیں گے‘‘۔ یہ عبدالعزیز بن ابی رواد کی روایت ہے جو انہوں نے سالم عن ابیہ سے روایت کی ہے اور محدثین نے عبدالعزیز میں کلام کیا ہے جیسا کہ حافظ بن حجر نے فتح الباری {۱۰-۲۶۲} میں لکھا ہے، اور ابوبکر بن ابی شیبہ نے تو ان کو غریب راوی قرار دیا ہے ، لیکن امام نووی نے ان کو حسن قرار دیا ہے ۔

اور ابوداؤد نے ابن عمرؓ سے وہی موقوف روایت نقل کی ہے جس میں اللہ کے رسولنے قمیص اور ازار کے بارے میں فرمایا ہے ۔

اور حافظ بن حجر نے طبری سے نقل کیا ہے کہ ازار ذکر کرنا دراصل ان کے غالب لباس پر مبنی ہے، اس لئے کہ اس وقت لوگوں کا عام لباس قمیص اور جبہ تھا اس لئے نہی کے اعتبار سے وہ بھی تہبند کے حکم میں داخل ہے ۔

ابن بطال فرماتے ہیں : یہ قیاس صحیح ہے اگر کپڑوں کے بارے میں کوئی نص وارد نہ ہو تو اس میں تمام قسم کے کپڑے شامل ہوں گے ، فروع {۱-۳۵۶} میں کتاب عمامہ کے شملہ کے بارے میں لکھا ہے: شیخ الاسلام اس کے بارے میں فرماتے ہیں: کہ اس میں عمامہ کے شملہ کا اسبال اور پتلون کا اسبال بھی شامل ہے ۔ واللہ اعلم


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں