×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / ​​قربانی کے مسائل / شام جیسے غریب اور مصیبت زدہ ممالک میں قربانی کے جانور ذبح کرنے میں وکیل بنانے کا کیا حکم ہے؟

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2804
- Aa +

شام جیسے غریب اور مصیبت زدہ ممالک میں قربانی کے جانور ذبح کرنے میں وکیل بنانے کا کیا حکم ہے؟

ما حكم التوكيل بذبح الأضحية في البلدان الفقيرة والمنكوبة مثل سوريا؟

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

 بتوفیقِ الٰہی آپ کے سوال کا جواب پیشِ خدمت ہے:

قربانی ایک سنت عمل ہے جو احادیث مبارکہ سے ثابت ہے ، اوراس کا عمل آپسے تواتر کے ساتھ منقول ہے کہ آپدو بہترین سینگوں والے مینڈھے ذبح کرتے تھے ، اور اللہ تعالیٰ نے قربانی کو اپنے شعائر میں سے بناتے ہوئے ارشاد فرمایا: ﴿اور بُدن {قربانی کے جانور} کو ہم نے تمہارے لئے اللہ کے شعائر میں سے بنایا ان میں آپ کے لئے بہتری ہے﴾ [الحج: ۳۶] اور بُدن وہ اونٹ ہوتے ہیں جو اللہ کی قربت حاصل کرنے کے لئے ذبح کئے جاتے ہیں اور انہی میں سے ضحایا بھی ہیں ۔

آپ بذات خود اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربانی کرتے تھے جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت انس ؓ سے مروی ہے: ’’اللہ کے رسولنے دو بہترین سینگوں والے مینڈھے اپنے ہاتھوں سے ذبح کئے ، اور ان پر تسمیہ اور اللہ کا نام پڑھا، اور اپنا پاؤں مبارک ان کے اوپر رکھا‘‘ {بخاری: ۵۵۶۵، مسلم: ۱۹۶۶

 اور اللہ تعالیٰ کے ان شعائر کی تعظیم کرتے ہوئے صحابہ بھی اس کا خوب اہتمام کرتے تھے جیسا کہ صحیح بخاری میں ابوامامہ بن سہل ؓ فرماتے ہیں کہ: "ہم مدینہ میں ذبح کے لئے قربانی کے جانور موٹا تازہ کرتے تھے اور باقی مسلمان بھی اپنے قربانی کے جانوروں کو موٹا تازہ کرتے تھے" {بخاری:۵۵۵۳

 اور شعائر اللہ کی تعظیم یہی ہے کہ قربانی کے جانور کو فربہ کرکے اس کو اچھے طریقہ سے ذبح کیا جائے، اس پر اللہ کا نام لیا جائے ، قربانی کے وقت وہاں حاضر ہو کر اس کا گوشت خود بھی کھائے دوسروں کو بھی کھلایا جائے ، ان سب مقاصد کی رعایت کرنی چاہئے ، اور جہاں تک ہو سکے اس کی تحصیل میں دھوڑ دھوپ کرنی چاہئے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿اللہ کو تمہارے قربانی کے جانوروں کے گوشت اور خون نہیں پہنچتے بلکہ تمہارے دلوں کا تقوی پہنچتا ہے﴾ [الحج: ۳۷

اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ قربانی کا جانور فقر اور ضرورت کے تحت کسی دوسرے ملک میں بھیجا جاسکتا ہے یا نہیں تو اس میں اہل علم کے دو اقوال ہیں:

پہلا قول: اس کی ممانعت کا ہے ، اس لئے کہ دوسرے ممالک میں قربانی کے جانور بھیجنے سے بہت ساری مصلحتیں فوت ہوجاتی ہیں جو قربانی میں مقصود ہوتی ہیں، اور بہت ساری مفاسد وجود میں آجاتی ہیں ، اس لئے کہ فقراء اور غریبوں کو کھلانے کا مقصد قربانی کے مقاصد پرغالب نہیں آنے چاہئے ، اور اس میں ہمارے شیخ ابن عثیمین سرفہرست ہیں ، اور ان کا باقاعدہ اس پر ایک خطبہ ہے جس میں ان مصالح کا ذکر ہے جو اس سے فوت ہو جاتے ہیں اور مفاسد وجود میں آجاتے ہیں، اور اس خطبہ میں انہوں یہ فرمایا ہے: ’’یہ اطلاقا نہیں کرنا چاہئے کہ ہم لوگوں کو اس طرف بلائیں کہ وہ دراہم حوالہ کریں تاکہ وہ دوسرے ممالک میں قربانی کریں‘‘۔

دوسرا قول: اس کے جواز کا ہے اس لئے کہ اس میں مضطرین کی مصلحت ہے ، اور یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ان فقراء و مساکین کا حصہ مقرر کیا ہے جیسا کہ قربانی کے گوشت کی تقسیم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’خود بھی اس گوشت سے کھاؤ اور ضرورتمندوں کو بھی کھلاؤ‘‘ [الحج: ۳۶]۔ تو اس کو یہاں نصف بنا دیا اور دوسری جگہ ثلث بنا دیا، لہٰذا اس اعتبار سے گوشت میں فقراء کا حصہ یا تو نصف ہے یا ثلث۔ اور خود گوشت کھانے کا حکم اجازت کے طور پر ہے اس لئے کہ زمانہ ٔ جاہلیت میں قربانی کے جانور کا گوشت نہیں کھایا جاتا تھا تو اس غلط عقیدہ کو فاسد کرنے کے لئے گوشت کھانے کا حکم دیا ، اسی لئے جمہور علماء کے نزدیک قربانی کے جانور کا گوشت کھانا مستحب ہے ۔

پس اہل علم کے نزدیک بالاتفاق قربانی کا گوشت کھانا سنت ہے ، لیکن قربانی کا گوشت کھانے والے کے لئے استحباب کی رعایت کرنی چاہئے کہ اس کو ذخیرہ نہیں کرنا چاہئے اس لئے کہ آپنے قربانی کے گوشت کو تین دن کے بعد ذخیرہ کرنے سے منع فرمایا ہے ، اور لوگوں کو گوشت روکنے سے روکا ہے ، لوگوں کو لاحق شدہ بھوک کی رعایت رکھتے ہوئے ، اور آپنے نہی کی علت بیان فرمائی ہے ، جیسا کہ صحیح مسلم {۱۹۷۱} میں حضرت عمرہ ؓ کی حدیث میں ہے وہ فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آپکے زمانہ میں مدینہ کے آس پاس کے دیہاتی لوگوں کو بھوک لاحق ہوئی تو آپ نے ارشاد فرمایا: ’’تین دن تک گوشت ذخیرہ کرو جو باقی بچے اس کو صدقہ کردو، یہ سن کر لوگوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! کہ لوگ تو قربانی کے جانوروں سے اپنے لئے مشکیزے بناتے ہیں ، اور اس کی چربی استعمال کرتے ہیں ، آپنے یہ سن کر ارشاد فرمایا کہ یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا: یہ تو آپ کو اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ قربانی کا گوشت تین دن کے بعد نہ کھاؤ ، آپنے یہ سن کر فرمایا: میں نے تو آپ کو لوگوں کو لاحق شدہ بھوک کی وجہ سے روکا لہٰذا اس کے بعد ذخیرہ بھی کرو اور صدقہ بھی کرو‘‘۔

صحیح بخاری {۵۴۳۲} میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے حدیث کی علت کے بارے میں فرمایا کہ ایسا اللہ کے رسولنے لوگوں کو لاحق شدہ بھوک کی وجہ سے کیا اور اللہ کے رسول یہ چاہتے تھے کہ مالدار لوگ فقیروں کو کھلائے ۔

یہی اصل قاعدہ ہے جو یہ بتا رہا ہے کہ فقیر کی حاجت کو پورا کرنا قربانی کے گوشت کو روکنے اور تین دن سے زیادہ ذخیرہ کرنے پر غالب رکھا جائے گا، امام قرطبی نے اسی کو لیتے ہوئے لکھا ہے: ’’اگر کسی علاقے میں قربانی کے دنوں میں کچھ محتاج لوگ آجائیں ، اور اس علاقے والوں کے پاس اتنی وسعت نہیں ہے جس سے وہ ان آئے ہوئے لوگوں کی ضرورت پوری کرسکیں سوائے قربانی کے گوشت دینے کے کہ اس کے ذریعہ ان کی مدد کرسکیں تو پھر یہی بہتر ہے کہ تین سے زیادہ ذخیرہ نہ کیا جائے‘‘ [تفسیر قرطبی: ۱۲/۴۸

حافظ بن حجر نے قرطبی کے تین دن کی تقیید پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ تین دنوں کے ساتھ تقیید ایک حال کا واقعہ ہے ، ورنہ اصل بات تو یہ ہے کہ اگر وہ فاقہ سب کے تفریق سے پورا ہوتا ہے اس اختیار پر عدمِ امساک لازم آئے گا اگرچہ وہ ایک رات کے لئے ہو [فتح الباری: ۱۰/۲۷

اور جن حضرات نے غریب ممالک اور مجاہدین کے لئے گوشت کے جواز کا کہا ہے تو ان میں ہمارے شیخ عبد العزیز بن باز سرفہرست ہیں کہ انہوں نے اس مسئلہ کے جواب میں کہا ہے: ’’اس میں کوئی حرج نہیں کہ اپنے گھر والوں کے لئے ذبیحہ کرے یا باہر کے لوگوں کے لئے لیکن آپکے پیروی کرتے ہوئے  گھر والوں کے لئے زیادہ افضل ہے‘‘۔ پھر فرمایا: ’’اگر وہ کسی دوسرے غریب ملک میں قربانی کرنا پسند کرے تو اس کو اس کا اجر ملے گا اس لئے کہ یہ صدقات میں سے ہے‘‘ {فتاوی نور علی الدرب: ۱۸/۲۰۶

لہٰذا شیخ عبدالعزیز بن باز ؒ کا مسلک جواز کا ہے ، اور فرمایا کہ افضل تو یہی ہے کہ انسان اپنے وطن اپنے گھر والوں کے لئے ذبیحہ کرے اور دوسرے فقراء کو بھی اس کا گوشت دے جس سے وہ اپنی ضرورت پوری کر سکیں۔

  اور اس میں زیادہ قرین قیاس اور أقرب الی الصواب مجھے یہی لگ رہا ہے کہ سنت پر عمل کرتے ہوئے شعائر اللہ کی اظہار کرتے ہوئے قربانی اپنے ہی ملک میں ہونی چاہئے ، لیکن ضرورت اور مصلحت کے پیشِ نظر دوسرے غریب ممالک کو بھی بھیجا جاسکتا ہے ، بلکہ ہوسکتا ہے کہ شدّتِ ضرورت اور بھوک میں تاکید کے ساتھ مستحب ہو اور قربانی کے وقت قربانی کرنے والے کا اس وقت حاضر ہونا ، اس کو ذبح کرنا ، اس پر تسمیہ ودعاء پڑھنا اور خود بھی اس سے کھانا اور دوسروں کو بھی اس سے کھلانے پر جو اجر وثواب ملتا ہے وہ ضرورتمندوں کی ضرورتیں اور حوائج پوری کرنے پر بھی اسے ملے گا۔

یہ بھی جائز ہے کہ ایک گھر والے ایک سے زائد قربانیاں کریں، یا ان کے پاس وصیت وغیرہ سے قربانیاں جمع ہوں ، اس لئے کہ شعائر اللہ کا اظہار تو گھر والوں کی طرف سے ایک آدمی اور اس کے پورے گھرانے سے بھی ہو جاتا ہے ، اور گوشت بھیجنے میں دوسرے محتاج و ضرورتمند مسلمانوں کی مدد کرنی ہے ۔ واللہ أعلم

آپ کا بھائی/

خالد المصلح

5/ 12 / 1434هـ


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں