×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / البيوع / اجارہ (کوئی چیز کرایہ پر لینا) کا وہ معاملہ جو تملیک پر ختم ہوجاتا ہے

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:3158
- Aa +

اس اجارہ (کوئی چیز کرایہ پر لینا) کے متعلق مسئلہ جو تملیک پر ختم ہوجاتا ہے

الإجارة المنتهية بالتمليك

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:

وہ اجارہ (کوئی چیز کرایہ پر لینا) جو تملیک پر ختم ہوجاتا ہے مالی معاملات کے میدان میں ایک نیا معاملہ ہے ،اسی لیے عام معاملات کی طرح اس کی ابتداء ایک خاص صورت میں ہوتی ہے جس میں کچھ شرعی پابندیاں ہوتی ہے ، پھر اس گزرے عقد (معاملہ ) میں پابندیاں ہیں ان میں ترمیم ہوتی ہے اور وجہ اشکال ختم کیا جاتا ہے ، اسی لیے ابتدائی طور پر اس مسئلہ پر فتوی بھی حرمت کا تھا ۔ کیونکہ یہ ایسا عقد تھا جس میں بیک وقت ایک عقد میں دو عقد شامل تھے۔ جس کی وجہ سے اس عقد پراجارہ اور بیع دونوں کے احکامات مترتب ہو رہے تھے۔ اور ایسا ہونا نا ممکن ہے ۔

در حقیقت اختلاف دو عقدوں کے معاملہ کا تھا ، اسی لیے اس وقت ہیئۃ کبار العلماء کی طرف سے فتوی بھی تحریم کا صادر ہوا تھا ، اس لیے کہ اس معاملہ میں بیک وقت ایک عقد میں دو عقد شامل ہیں ۔ جبکہ دونوں عقد آپس میں مختلف قسم کے ہیں جن کے احکامات کو ایک معاملہ میں جمع کرنا ممکن نہیں ۔ اور اسکے بعد معاملہ کی اس صورت میں کچھ کمپنیوں اور مختصین و محققین کی طرف سے اس میں اصلاح و ترمیم ہوا ، اور کچھ ایسی صورتیں وجود میں آئی جن میں شریعت کی پابندیوں اور دیے گئی آراء کا لحاظ تھا۔ اسی لیے بعد میں دوبارہ مجمع الفقہ الاسلامی کی طرف سے کچھ صورتوں میں جواز کا فتوی صادر ہوا، اور کچھ میں حرمت کا ۔اس لیے اس معاملہ (اجارہ کا وہ معاملہ جو تملیک پر ختم ہوجاتا ہے) میں مطلقا حرمت کا فتوی نہیں دیا جاسکتا ۔ اور نہ ہی مطلقا اباحت کا کہا جاسکتا ہے ، کیونکہ اس مسئلہ کی ساری صورتیں ایک جیسی نہیں ہے بلکہ اسکی کئی صورتیں ہیں ۔ تو لہذا جب انسان کسی سے اس طرح کا کوئی معاملہ کرے اور پھر طرفین کا آپس میں کوئی اختلاف واقع ہوجائے ۔ تو اس وقت عدالت اس معاملہ کی حقیقت کے بارے میں فیصلہ کرے گی کہ یہ معاملہ بیع کا تھا یا اجارہ ، اور جائز تھا کے نا جائز ۔ لہذا اس مسئلہ کے حل کے لیے عدالت کے پاس ہی جانا ہوگا ۔

بہر حال اجارہ کا وہ معاملہ جو تملیک پر ختم ہوجاتا ہے سرمایہ کاری کے بہت ساری ایسی صورتوں سے کافی بہتر ہے جن کو اسلامی سرمایہ کاری کا نام دیا جاتا ہے یا انکے بارے میں یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ یہ سرمایہ کاری اصول و ضوابط کے مطابق ہے ، حالانکہ حقیقت میں اس معاملہ کی اکثر صورتیں ایسی ہیں کہ ان میں کھلم کھلا سودی معاملہ کے ساتھ ایک قسم کا حیلہ ہے ، جس میں کچھ غلط اور مشکوک راستوں کے ذریعہ عقد سے خلاصی ہوجاتی ہے۔

یہ سارا خلاصہ اجارہ کے اس معاملہ کے متعلق تھا جو تملیک پر ختم ہوجاتا ہے ، تو اس کے اکثر صورتوں میں کوئی حرج نہیں ہے ، اور اگر آپکو کسی خاص صورت میں کوئی مسئلہ درپیش ہو تو اسکے بارے میں سوال کیجئے گا


سب سے زیادہ دیکھا گیا

ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں