×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / البيوع / سود اور نشہ آور چیز کی تھوڑی اور زیادہ سب حرام ہے

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2533
- Aa +

ایک شخص شراب پیتا ہے اور جب ہم اسے کہتے ہیں کہ شراب حرام ہے تو وہ آگے سے کہتا ہے کہ میں تھوڑی مقدار میں پیتا ہوں جو مجھے نشہ نہیں دلاتا ۔ اس بات میں وہ شخص علماء کا تھوڑے مقدار میں سود کو جائز کرنے کو دلیل بناتا ہے ۔

تحريم القليل والكثير من الربا والمُسْكِر

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:

پہلی بات: میں علماء میں سے ایسے کسی عالم کو نہیں جانتا جو تھوڑے مقدار میں سود کو جائز کہتا ہو ۔ سود کی حرمت پر علماء کا اجماع ہے چاہے  تھوڑے مقدار میں ہو یا زیادہ ، اس مسئلہ میں اہل علم کا اختلاف ہی نہیں ، اجماع کو نقل کرنے والے جمہور اہل علم جیسے کہ ابن عبد البر، ابن المنذر، النووی اور وہ سارے علماء جو اجماع کو نقل کرنے والے ہیں سب نے سود کی  تھوڑی اور زیادہ مقدار سب حرام نقل کیا ہے ۔

مثال کے طور پر اگر جناب میں آپکو دس ریال دوں اور آپ سے کہوں کہ ایک ہفتہ بعد ساڑھے دس واپس کرنے ہیں ۔ تو اگرچہ صرف نصف ریال کی زیادتی ہے پر پھر بھی اس آیت کی وعید میں داخل ہوگی ، (جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ قیامت میں اٹھیں گے تو اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھوکر پاگل بنادیا ہو) {البقرۃ: ۲۷۵} اور اس کے علاوہ بہت ساری نصوص میں بھی جن میں حرمتِ ربا کے بارے ہوشیار کیا ہے۔

لیکن اس بھائی کو لوگوں کی اس بات میں التباس ہوا ہے کہ شیرز کی خرید و فروخت کے معاملہ میں جو سود ہے یہ بہت کم مقدار میں ہے ، اور اتنے مقدار کی سود میں کوئی حرج نہیں ۔ اور یہاں میں اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ یہ بات بہت سارے لوگوں کی اشکال کا  وجہ ہے ۔

وہ کہتے ہیں کہ آپ قلیل مقدار میں ربا کو کیسے جائز ٹھہراتے ہیں جبکہ اللہ نے اسکو حرام ٹھہرایا ہے ، تو پھر تو تھوڑے مقدار میں سود جائز ہوجائے گا ؟

اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ : کہ جو حضرات شیرز کی خرید و فروخت کے معاملہ کو جائز سمجھتے ہیں باوجود اس میں قلیل مقدار میں سود کے موجود ہونے کے تو وہ ان شیرز کی خرید و فروخت کے معاملات میں سے وہ حصہ نہیں جائز کرتے جس میں سود ہے ، بلکہ وہ کہتے ہیں کہ درحقیقت جس کمپنی کے شیرز کا معاملہ کرتے ہیں اس کمپنیی کی سرگرمی اور کام مباح کام ہوتے ہیں جیسے کے رابطہ تعلقات (کمیونیکیشن) والی کمپنی ، بجلی فراہم کرنے والی کمپنی ، انڈسٹری کی کمپنی ، کاشت کاری کی کمپنی ۔ اسی لیے تو لوگ ان کمپنیوں کے پاس جاتے ہیں شیرز کا معاملہ کرنے کے لیے ، لوگ ان کمپنیوں کے پاس اس لیے تو نہیں جاتے کہ وہ سودی بینکوں میں جمع پیسوں کے سودی منافع حاصل کرے ، بلکہ وہ لوگ صرف ان مباح سرگرمیوں اور کاموں کی وجہ سے  ان کے پاس جاتے ہیں ۔ تو اگر ان کمپنیوں کی اصل سرگرمی ہی جائز ہے اور اکثر کمپنیوں میں ایسا ہی ہوتا ہے تو اس لیے علماء کی جماعت نے اس سرگرمی کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ حرام ہے۔ چاہے اس بڑی تعداد کی مباح سرگرمیوں میں کسی اور نوع کی ناجائز سرگرمی بھی شامل ہو یا نہ ہو تو معاف ہے ۔

پس دونوں مسئلوں میں فرق ہے اور فرق بھی بہت باریک قسم کا ہے جسے سمجھنے کے لیے غور کرنا پڑے گا۔

اور جہاں تک تھوڑی مقدار میں شراب پینے کی بات ہے تو ۔جبکہ یہ مسئلہ کا بنیاد ہے۔ حضور نے اس کا فیصلہ اس حدیث میں خود کر لیا: (جس چیز کی زیاد مقدار نشہ کرے تو اسکی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے) {شعب الایمان: ۵۱۸۷} اور یہ حدیث صحیح بخاری وغیرہ میں موجود ہے ۔

حضور یہ بتانا چاہتے ہیں کہ شراب سے بچنا واجب ہے ، اگرچہ کوئی انسان کہے کہ مجھے نشہ نہیں چڑھتا اس لیے میں شراب پینا چاہتا ہوں ۔  تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ صرف اس بات کا گمان ہونا کہ نشہ چڑھ سکتا ہے حکم کو ثابت کر دیتا ہے اگرچہ ابھی حقیقۃ نشہ نہیں ہوا ۔ یعنی اگر کوئی انسان ہو جسکی حاضر دماغی کی طاقت بہت زیادہ ہو اور ایک دو بوتل پی کر بھی نشہ نہیں ہوتا ، تو ہم اسے کہیں گے کہ کوئی بات نہیں آپ تھوڑی مقدار میں پی سکتے ہیں ؟  نہیں ہرگز ایسا نہیں ہے ، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس مسئلہ کا مقصود یہی ہے کہ شراب نشہ آور چیز ہے ، تو کسی انسان کا ایسا ہونا کہ وہ بڑا حاضر دماغ اور بڑی مضبود طبیعت اور جان والا ہو اور یہ کہ اسے اللہ نے ایسی قدرت دے رکھی ہے کہ وہ ایک دو مٹھکے یا ایک دو گلاس شراب سے نشہ نہیں ہوتا  یہ بات ہرگز اسکے لیے شراب پینا جائز نہیں کرتی ۔  بلکہ شراب کی مقدار تھوڑی یا زیادہ ہو شراب حرام ہی رہیگا ۔ حضور نے پیچھے گزری حدیث میں یہ بات واضح کی ہے کہ (جس جیز کی زیاد مقدار نشہ کرے تو اسکی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے) یعنی اگر کسی انسان کو تب ہی نشہ چڑتا ہے جب وہ دس گلاس شراب کے پی لے تو ہم دو، تین، چار یا پانچ گلاسوں کی حرمت کا نہیں کہتے بلکہ اس کا ایک گھونٹ بھی پینا حرام ہوگا


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں