×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / البيوع / قسطوں پر چیز خریدنا

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2366
- Aa +

میرا سوال اس بیع کے بارے میں ہے جس میں قیمت بعد میں دی جاتی ہو۔ میرے پاس ایک گاڑی ہے جس کی کوئی خاص قیمت نہیں ، اب مثال کے طور پر میں اسے ستر ہزار کی بیچتا ہوں تین مہینے کا وقت دے کر، لیکن اگر میں اسے نقد میں بیچتا تو یہ ۶۳ ہزار کی بک جاتی۔ برائے مہربانی اس مسئلے کی وضاحت کیجئے

عن بيع التقسيط

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

بتوفیقِ الہٰی آپ کے سوال کا جواب درج ذیل ہے:

اس بیع میں کوئی حرج نہیں ۔ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے آیتِ بیع میں: ((اور اللہ نے بیع کو حلال فرمایا اور سود کو حرام کیا)) {البقرۃ: ۲۷۵}۔ اور بیع کا حلال ہونا یہ تقاضہ کرتا ہے کہ ہر قسم کے بیوع (خریدوفروخت) کے معاملات جائز ہے، جب تک اس کی حرمت میں کوئی واضح دلیل سامنے نہ آئے۔

اور ثمن میں تأخیر اور اس میں زیادتی کرنا اس تأخیر کے مقابلے میں ہے،اور یہ جملہ قرض کے معاملات میں سے ہے،اور یہ بھی معلوم ہے کہ حاضر ثمن کی قیمت مؤجل ثمن کے برابر نہیں۔ جیسا کہ سلَم بیعِ مؤجل کے برعکس ہوتا ہے، لیکن وہاں ثمن پہلے دیا جاتا ہے اور چیز بعد میں، اسی لئے یہ ثمن میں کمی کا باعث بنتا ہے۔ اسی طرح ثمن میں تأخیر اور چیز کا پہلے حوالے کرنا یہ سبب ہے قیمت میں بڑھوتری کا۔ اور اسی پر جمہور علماء اور اہلِ تحقیق حضرات کا اتفاق ہے۔

اور جس نے اس معاملے کو حرام کہا ہے ان کے پاس نہ کوئی دلیل اور اصل نہیں، اور اقساط کی بیع کو حرام کرنا یہ دلیل ضعیف ہے


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں