×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / البيوع / فلسطین کی زمینوں کا بیچنا

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2394
- Aa +

میرے والد صاحب وفات پاگئے اور ہمارے لئے کافی ترکہ چھوڑا، اور یہ ترکہ فلسطین میں ہمارے زمینوں کے دستاویزات (چیک) کی شکل میں ہے، اور یہ ساری زمینیں اب قبضہ میں ہیں اور جب تک اللہ تعالیٰ نہ چاہے تو موجودہ وقت میں ہمارے لئے یہ زمینیں حاصل کرنا ناممکن ہے، اور والد صاحب نے یہ وصیت بھی کی ہے کہ ان سے بالشت بھر زمین بھی نہ بیچی جائے ، ہمیں اس کا اچھی طرح علم ہے کہ سرزمین ِ فلسطین ایک مقدس سرزمین ہے اور وہ صرف یہودیوں کو ہی بیچی جائیں گی لیکن یہ عین ممکن ہے کہ ان کو یہ زمینیں بیچنے سے ان کو مزید طاقت مل جائے گی ، اور اس سرزمین میں ان کا حق بھی ثابت ہوجائے گا اور ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی زمین کی دفاع کے لئے مسلمانوں کے قتل تک سے نہ دریغ نہ کریں ، لہٰذا اس زمین کا بیچنا جائز ہے؟

بيع أراضي فلسطين

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

 بتوفیقِ الٰہی آپ کے سوال کا جواب پیشِ خدمت ہے:

اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسطین کی زمینیں یہودیوں کو بیچنا جائز نہیں ہے، اس لئے کہ مسلمان کو اس بات سے روکا گیا ہے کہ وہ ایسے کافروں کیساتھ بیع وشراء کرے جو اہل اسلام کیساتھ برسرِ پیکار ہوں اور ان کو ہر ایسی چیز بیچنے سے بھی روکا گیا ہے جو مسلمانوں کے خلاف ان کے لئے معاون و مددگار ثابت ہو اور جس سے ان کو مسلمانوں پر غلبہ حاصل ہو۔

اور اس کے بارے میں اہل علم کا جو اختلاف ہے وہ روز روشن کی طرح واضح ہے، ابن حزمؒ محلّی{9/65} میں لکھتے ہیں: ’’ان کے ساتھ بیع و شراء جائز ہے لیکن جانور ، ہتھیار اور لوہا وغیرہ جس کے ذریعہ ان کو مسلمانوں پر غلبہ حاصل ہوسکتا ہے تو ایسی چیزیں ان کو بیچنا جائز نہیں ہے، اس کے آگے ارشاد باری تعالیٰ ذکر کرکے لکھتے ہیں: ﴿تم آپس میں نیکی اور تقوی کے کاموں میں باہم ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہوں کے کاموں میں ایک دوسرے کی معاونت نہ کیا کرو﴾ [المائدہ: 2] لہٰذا ان کو ایسی چیز بیچنا جس سے ان کو تقویت ملتی ہو تو وہ حرام ہے، اور جو ایسا کرے گا اس پر اس کی تعزیر کی جائے گی اور اسے ایک لمبے عرصہ تک قید کے جائے گا‘‘۔

 ابن حزمؒ کا یہ مذکورہ قول اور بھی ائمہ کرام سے منقول ہے ، امام نووی نے المجموع شرح المہذب {9/432} میں لکھا ہے کہ اہل حرب کو اسلحہ بیچنا بالاجماع حرام ہے اسلئے کہ اس سے ان کو تقویت ملتی ہے۔

اور دسوقی مالکی نے شاطبی سے نقل کرتے ہوئے اپنے حاشیہ {3/7} میں لکھا ہے: ’’کہ اہل حرب کو شمع تک بیچنا حرام ہے اگر اس کے ذریعہ ان کو مسلمانوں کے خلاف تقویت ملتی ہو، تو جب اتنی معمولی چیز ان کو بیچنا حرام ہے تو باقی چیزوں کا کیا کہنا جو مسلم ممالک میں ان کے قدم جماتی ہوں‘‘۔

اور یہودیوں کو زمینیں بیچنے کے عدم جواز کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے ایسے لوگوں کو دھکے دے کر باہر نکالیں جنہوں نے ان کی سرزمین کو ان سے زبردستی چھین کر اس پر ناحق قبضہ اور تسلط جمایا ہوا ہے، اس میں اہل اسلام کا کوئی اختلاف نہیں ہے، ہر کوئی اپنی مقدور بھر طاقت بروئے کار لائے ، اور ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اللہ ہر شخص کو اس کی وسعت کے مطابق مکلف بناتا ہے﴾ [البقرہ: 286] اور ان کو زمینیں بیچنا ان کو مسلمانوں کے خلاف قدرت و غلبہ دینا ہے اور یہ اس کے برعکس ہے کہ ہونا تو یوں چاہئے کہ ان سے جہاد کرکے ان سے اپنی زمینیں چھڑانی چاہئیں۔ واللہ اعلم

آپکا بھائی/

خالد المصلح

08/04/1425هـ


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں