×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / البيوع / بیعِ سلم اور سُود میں فرق

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:5098
- Aa +

ہمارے علمائے کرام نے سود کے باب میں ذکر کیا ہے کہ جب علت مختلف ہوجائے تو عدمِ تقابض اور عدمِ تماثل جائز ہوجاتا ہے، اور ان کا استدلال آنحضرتﷺ کی اس حدیث مبارکہ سے ہے جس میں آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص کسی چیز میں بیع سلم کرے تو اسے چاہئے کہ وہ معلوم ناپ ، معلوم وزن اور معلوم مدت تک کرے‘‘، اور بعض علماء نے بیع سلم کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے: عقدِ سلم ذمہ میں ایک عقدِ موصوف ہے جس میں ثمن مؤجل پر قبضہ مجلسِ عقد میں ہوتی ہے، اب یہاں مجھے اس تعریف میں تھوڑا سا اشکال پیدا ہوگیا ہے وہ یہ کہ ان حضرات نے مجلس عقد میں عدمِ تقابض کے جواز کا استدلال کیسے کیا ہے جبکہ علماء اس کی تعریف میں کہتے ہیں کہ مجلس عقد میں مقبوضہ ثمن کے ساتھ؟

الفرق بين السَّلَم والربا

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

وہ قبضہ جو سود سے سلامتی کے لئے شرط ہوتا ہے تو یہ وہ قبضہ ہوتا ہے جو عقد کے دونوں اطراف میں ہوتا ہے ، مثلا اگر کوئی سونے کے بدلے سونا بیچے تو جس پر عقد ہوا ہے اس پر دونوں طرفین کو قبضہ کرنا ضروری ہے، اسی طرح اگر کوئی آٹے کے بدلے کھجور بیچے تو بائع کا آٹے پر اور مشتری کا کھجور پر قبضہ ضروری ہے، رہی بات بیع سلم کی تو اس میں صرف ثمن پر قبضہ کیا جاتا ہے نہ کہ مبیع پر اور یہ اس لئے کہ یہ دَین کے بدلے دَین نہ ہو ۔

آپ کا بھائی/

خالد المصلح

16/08/1425هـ


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں