×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / البيوع / شراب بیچنے والے کو اجرت پر لینا

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:2692
- Aa +

کیا ایسے ہوٹل اور ہال رینٹ پر لینا جائز ہیں جن میں شراب اور دوسری حرام کردہ چیزیں بیچی جاتی ہوں ؟ اور کیا ایسی جگہوں میں نماز پڑھنا اور ذکر کرنا جائز ہے جبکہ اس میں شراب موجود ہو؟

حكم التأجير على بائع الخمر

جواب

حمد و ثناء کے بعد۔۔۔

آنحضرتسے ایسی کئی احادیث وارد ہوئی ہیں جو ایک مسلمان کو ایسے دسترخوانوں پر بیٹھنے سے منع کرتی ہیں جن پر شراب نوشی ہو رہی ہو یا ان پر شراب کا دور چل رہا ہو، اور ان سب احادیث میں أصح حدیث وہ ہے جسے امام نسائی نے الکبری {6741} میں ابو زبیر کے طریق سے حضرت جابرؓ سے روایت کی ہے کہ اللہ کے رسولنے ارشاد فرمایا: ’’جو اللہ تعالیٰ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو وہ ایسے دسترخوان پر نہ بیٹھے جس پر شراب کا دور چل رہا ہو‘‘۔ اس حدیث کی اسناد فتح الباری {9/250} میں حافظ بن حجر کے بقول جید ہے ، اسی حدیث کو امام ترمذی نے لیث بن ابی سلیم اور طاؤس کے طریق سے حضرت جابر ؓ سے روایت کی ہے، لیکن وہ حدیث لیث کی وجہ سے ضعیف ہے۔

یہ حکم صرف دسترخوان کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ اس جگہ کے ساتھ بھی خاص ہے جس میں شراب پائی جائے ، اس لئے میرے نزدیک ایسے ہال کرایہ پر لینا جائز نہیں ہیں جن میں شراب پڑی ہو، کیونکہ یہ گناہ کی جگہیں ان کو چھوڑنا اور ان سے باہر نکلنا واجب ہے ، امام نسائی {5256} نے حضرت علیؓ سے نقل کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے کھانا تیار کیا تو میں نے اللہ کے رسولکو بلایا، جب اللہ کے رسولاندر تشریف لائے تو ایک پردے پر نظر پڑی جس پر کچھ تصویریں بنی ہوئی تھیں تو آنحضرتوہاں سے باہر نکل گئے اور فرمایا: ’’فرشتے ایسی جگہوں میں نہیں آتے جہاں کتا یا تصویر ہو‘‘۔

اور اسی طرح سلفِ صالحین میں سے صحابہ اور تابعین بھی ایسے ولیموں میں نہیں جاتے تھے جبکہ یہ گناہ شراب کے گناہ سے کم درجہ ہے، اور حضرت ابن مسعودؓ سے بھی مروی ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ کسی کے گھر میں تصویریں دیکھیں تو وہاں سے واپس لوٹ گئے ، اسی طرح حضرت ابن عمرؓ سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے حضرت ابو ایوبؓ کی دعوت کی ، ابوایوب ؓ جب ان کے گھر تشریف لائے اور گھر کی دیوار پر ایک پردہ دیکھا جس پر کچھ تصویریں تھیں ، حضرت ابن عمر ؓ نے ان کی ناگواری کو بھانپتے ہوئے کہا کہ ہماری بیویاں ہم پر غالب آگئی ہیں، یہ سن کر حضرت ابوایوب ؓ نے فرمایا: مجھے ہر کسی کے بارے میں ڈر تھا لیکن تمہارے بارے میں نہیں، بخدا میں تمہارا کھانا نہیں کھاؤں گا یہ کہہ کر وہاں سے چل دئیے ۔

ان دو حدیثوں کو امام بخاری نے اپنے صحیح میں تعلیقا روایت کی ہے ، باقی رہا یہاں نماز پڑھنے کا سوال تو نماز یہاں درست ہے آپ کے عمومی ارشادات کے پیشِ نظر جن میں آپ فرماتے ہیں: ’’ساری کی ساری زمین میرے لئے سجدہ گاہ اور پاک بنادی گئی ہے‘‘۔ (رواہ البخاری: 332 و مسلم: 810)۔

لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسی جگہوں کو چھوڑنا واجب ہے اس لئے کہ اس میں گناہ کے کام ہوتے ہیں اس لئے اگر کسی دوسری جگہ نماز پڑھ سکتے ہیں تو ایسی جگہ نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔ واللہ اعلم


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں