خطبۂ اول:
تمام تعریفیں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہی کے لئے ہیں ، ہم سب اسی کی تعریف بیان کرتے ہیں اوراسی سے مدد طلب کرتے ہیں۔ جس کو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہدایت دیں تو اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں ہےاور جس کو گمراہ کردیں تو اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے ۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔
امابعد۔۔۔
اے مؤمنو!
حضرت إبراہیم علیہ السلام جو دعائیں مانگتے تھے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے ان میں سے کچھ کا واقعہ اپنی کتاب میں بیان کیا ہے۔ اللہ ﷻ حضرت إبراہیم علیہ السلام کی دعا کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں: ((اے ہمارےپروردگار! ہمیں کافروں کا تختۂ مشق نہ بنائیے)) ۔
اسی کے قریب وہ دعا ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مانگی تھی اور کہا تھا: ((اے ہمارےپروردگار! ہمیں ان ظالم لوگوں کے ہاتھوں آزمائش میں نہ ڈالئے۔))
اسی طرح ان دو اُولو العزم رسولوں ۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی ان پر رحمت اور سلامتی ہو ۔ کی دعائیں وارد ہوئی ہیں جن میں وہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ نہ انہیں اور نہ ہی ان کے ساتھ مؤمنین کو کافروں اور ظالموں کے ہاتھوں آزمائش میں ڈالے۔
یہ انبیاء علیہم السلام کا گڑگڑانا اور قرآنی دعائیں مؤمنین کے دل میں موجود اپنے ان دشمنوں کے دین کی خیر خواہی کی توجّہ کی بہت بڑی خبر دیتی ہیں جنہوں نے ان پر ظلم کیا اور ناانصافی کی۔ یہ انبیاء علیہم السلام ہیں جنہوں نے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی ربوبیت کا بلند آواز سے اقرار کرتے ہوئے اس سے گڑگڑا کر دعا مانگی کہ ان کی ایسی حالت نہ ہو جس سے کافر اور ظالم لوگ معتدل دین کے بارے میں آزمائش میں پڑجائیں، پھر ان کی آنکھوں میں کفر اور ظلم بہت مزیّن ہو کر سامنے آئے اور وہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے راستہ اور لوگوں کو اس کے دین میں داخل ہونے سے روکنے کا سبب بن جائیں ۔
آج بہت سارے مسلمان جس حالت کی طرف پلٹ آئے ہیں ان کی صورتحال میں غوروفکر کرنے والا دیکھتا ہے کہ ان کی حالت چاہے وہ قوم کی شکل میں ہوں یا اکیلے ہوں ایک موٹا پردہ تشکیل دے رہی ہے جو اسلام کے نور کو بجھا رہا ہے، اور اسلام کے راستہ سے روک رہاہے۔ یہ کڑوی صورتحال ایسا حائل ہونے والا پردہ بنارہی ہے جو اسلام کے تعارف اور اسلام میں موجود ہدایت اور نور کی واقفیت سے متنفّر کررہا ہے چہ جائے کہ وہ اہل ِاسلام کے کارواں اور مذہبِ اسلام سے ملائے۔
یہ بات بھی بیان کرنے کا حق ہے کہ یہ صورتحال دو بُرائیوں کی وجہ سے سمجھ میں آتی ہے۔
پہلی بُرائی: تقویٰ اور إحسان کے ان حکموں کو پورا کرنے میں ہماری کوتاہی ہےجن کا اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے۔
دوسری برائی: ہم نے اس دین کے انوارات اور اس میں موجود ہدایت اور صراطِ مستقیم کو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی مخلوق سے چھپا لیا ہےجو اس دین کے انواروبرکات کے پیاسے اور اس دین کی ہدایت کے حریص ہیں، چاہے ہمیں اس کا احساس ہو یا نہ ہو۔ ہم میں سے بہت سوں کے بارے میں پہلے شاعر کا یہ شعر سچ ثابت ہوتا ہے؎
وہ ایسی قوم ہیں کہ جب وہ ایک بُرائی سے نکلتے ہیں تو وہ داخل ہوجاتے ہیں
دوسری بُرائی میں جسے وہ پردوں سے بھی نہیں چھپا سکتے
سچا مؤمن یہ چاہتا ہے کہ وہ اس بات کی پوری کوشش کرے کہ بات، عمل یا حالت سے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے راستہ میں رکاوٹ بننے سے محفوظ رہے۔ اے مؤمنو! نبی کریم ﷺ نے اپنے اس صحابی سے فرمایا تھا جو اپنے ساتھیوں کو طویل نماز پڑھاتے تھے ’’تم میں سے کچھ لوگ دینِ اسلام سے متنفّر کرنے والے ہیں‘‘ بلکہ رسول اللہ ﷺ اس وجہ سے بہت زیادہ غصہ ہوگئے تھے، یہاں تک کہ اس حدیث کے راوی حضرت أبو مسعود البدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس دن سے زیادہ غصہ کی حالت میں کسی وعظ میں نہیں دیکھا، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے لوگو! تم میں سے کچھ لوگ دینِ اسلام سے متنفّر کرنے والے ہیں۔‘‘
اسی سے ملتےجلتے واقعہ میں رسول اللہ ﷺ کو جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی طویل نماز کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے انہیں فرمایا: ’’اے معاذ کیا تم شر انگیر ہو؟!‘‘ مطلب یہ ہے کہ کیا تم دین سے متنفّر کرنے والے اور اس سے روکنے والے ہو؟! رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد، فعل اور ان لوگوں کو غلط قرار دینا اس چھوٹے معاملے اور انفرادی واقعہ، یعنی مقتدیوں کو طویل نماز پڑھانے کے بارے میں ہے جو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے دین سے متنفّر کرتے ہیں۔ کاش کہ مجھے معلوم ہوتا کہ رسول اللہ ﷺ ان لوگوں کو دیکھتے تو کیا فرماتے جن کے اس طرح کے بہت سارے کام ، بے شمار اعمال اور مضبوط مناہج ہیں جن سے راستے گھوم جاتے ہیں اور اس کی کجی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے راستہ سے متنفّر کرنے اور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے بندوں کو روکنے پر قائم ہوتی ہے۔ اس کے باوجود وہ یہ جواب دیتے ہیں :’’میرا مقصد اپنی استطاعت کی حد تک اصلاح کے سوا کچھ نہیں ہے۔‘‘!! اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے سچ فرمایا ہے: ((خوب اچھی طرح سن لو کہ یہی لوگ بے وقوف ہیں، لیکن وہ یہ بات نہیں جانتے۔))
اے مؤمنو!
یہ ایمان کا تقاضا ہے کہ مؤمن اپنی ذات کو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے دین سے متنفّر کرنے والوں کی جماعت میں داخل ہونے سے دور رکھے، مخلوق اور ہر ایک کو ہدایت کی طرف شوق دلانے کی بہت زیادہ خواہش رکھے اور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا منتخب رسولوں کو یہ ارشاد یاد رکھے: ((ان واقعات کے بعد اللہ کی رحمت ہی تھی جس کی بنا پر (اے پیغمبر!) تم نے ان لوگوں سے نرمی کا برتاؤ کیا۔ اگر تم سخت مزاج اور سخت دِل والے ہوتے تو یہ تمہارے آس پاس سے ہٹ کر تتر بتر ہوجاتے۔))
رحمت ہی خاتم النبیین اور رسولوں کے إمام ﷺ کی رسالت کا بہت بڑا عنوان ہے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ((اور (اے پیغمبر!) ہم نے تمہیں سارے جہانوں کے لئے رحمت ہی رحمت بناکر بھیجا ہے۔))
ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اورکہا: اے اللہ کے رسول! مشرکین کے لئے بددُعا کیجئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے لعنت کرنے والا بناکر نہیں بھیجا گیا، مجھے رحمت بناکر بھیجا گیا ہے۔‘‘
اس دین کی روشن علامت یہ ہے کہ یہ دین، دینِ رحمت ہے، اس کے سائے اللہ کو سجدے کرتے ہیں اور اس کا پھل تمام لوگ چنتے ہیں چاہے وہ مؤمن ہوں یا کافر، جنہیں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ توفیق دے اور انہیں اسلام میں داخل کرکے ان پر احسان کرے۔ اسی طرح وہ شخص جو اسلام سے اعراض کرتا ہے اوراسے قبول نہیں کرتا اس سے بھی رحمت اور نیکی ختم نہیں ہوتی۔
مسلمانوں کی بہت ساری جماعتوں کا باتوں اور اعمال میں قرآنی وحی اور سنّت کی ہدایت سے منہ موڑنا اس بات کی تصدیق اور تائید کرتا ہے جس کی عادت مشرق اور مغرب میں اسلام کے دشمنوں نے اسلام کے حقائق کو کمزور کرنے او رلوگوں کو اس سے روکنے کے سلسلے میں بنالی ہے۔ دشمنوں کی ملامت کبھی بالکل عاجز کردیتی ہے۔ اس بات کا کوئی فائدہ نہیں ہے کہ ہمارے دشمن اسلام کی طرف جن خیالات اور کمزور باتوں کی نسبت کرتے ہیں ان کے بارے میں ہم انہیں ملامت کریں بلکہ اس کمزوری کو ہمیں اپنی ذات کی طرف منسوب کرنا چاہئے!! یہ ایسی بات ہے کہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی مسلمان کسی عذر کے تحت اور کسی سبب کے سائے میں اسے قبول کرے ۔ لہٰذا تمام اُمّت پر لازم ہے کہ وہ ہر اس شخص کا ہاتھ پکڑے جو اپنی بات یا عمل سے اسلام کو کمزور کرنے کی کوشش کرے تاکہ ہم ان ظالم لوگوں کے ہاتھوں آزمائش میں نہ پڑیں۔
رسول اللہ ﷺ کافروں کے لئے آزمائش بننے کے بارے بہت زیادہ متنبّہ تھے۔ اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے اپنی ذات ِ بابرکت اور اپنی شریعت سے بُری بات ہٹانے اور اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے راستہ سے روکنے اور اسے کمزور کرنے والے دشمنوں کو دور کرنے کےلئے ایسے لوگوں کا قتل معاف فرمادیا تھا جو قتل کے مستحق تھے ۔ صحیحین کی حدیث میں ہے کہ جب حضرت عمر بن الخطّاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے منافقین میں سے ایک منافق کو قتل کرنے کی اجازت چاہی جس نے اپنی ایذاء رسانی اور نفاق کو ظاہر کردیا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے چھوڑ دو! یہ لوگ یہ باتیں نہ کرتا پھرے کہ محمّد اپنے ساتھیوں کو بھی قتل کردیتے ہیں۔‘‘ کسی کہنے والے نے سچ کہا ہے:
جس نے لوگوں کو اپنی مذمّت کی طرف بلایا تو لوگ اس کی حق اور باطل کے ذریعہ مذمّت بیان کریں گے۔
اے مؤمنو!
لوگوں کی کئی جماعتوں کا انسانی جان کی تذلیل اور اس کی توہین کرنے میں ہلاکت میں پڑے ہونا زمین پر فساد کی بہت بڑی قسم ہے۔ یہ ایسی سب سے بڑی چیز ہے جو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے راستہ سے روکتی ہے۔ گھات لگائے لوگ اسلام کو کمزور کرنے اور اسلام کے ساتھ بدبودار اوصاف ملانے کے لئے انہی باتوں کا سہارا لئے بیٹھے ہیں،جیسا کہ ایک آدمی اسلام کی اس طرح تعریف کرتا ہے کہ وہ : ’’خون بہانے والا دین ہے جو دشمنی اور انتقام پر اُبھارتا ہے۔‘‘ اور ایسا شخص اس کے علاوہ بھی دیگر جھوٹ، بہتان اور بکواس کرتا ہے۔ دینِ اسلام رحمت اور انصاف کا دین ہے۔ جس شخص نے بھی اسلام کی کچھ تعلیمات جانی ہوں گی یا اس کے کچھ احکام اور نظام کا مطالعہ کیا ہوگا وہ یہ نتیجہ نکالنے میں غلطی نہیں کرے گا۔
قرآن وسنّت کی نصوص میں سرسری نظر انسانی جان کی حُرمت اور اس کے خون کے عالی مرتبہ ہونے کی عظمت واضح کردیتی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتےہیں: ’’انسان ہمیشہ اپنے دین میں کشادگی میں ہی رہتا ہے جب تک کہ وہ حرام خون نہ بہائے‘‘مطلب یہ ہے کہ قتلِ ناحق سے پہلے دین کی گنجائش ، اطمینان اور سلامتی میں ہوتا ہے۔
اے مسلمانو! ہم جان کی توہین کرنے کا انکار کرتے ہیں جس کی وجہ سے کم عقل اور بے وقوف لوگ ہلاکت میں پڑگئے ہیں، چاہے وہ اس کو جائز قرار دینے کی کتنی ہی کوشش کرتے رہیں یا اس کو مباح قرار دینے میں کتنی ہی مشقت برداشت کرتے رہیں یا اس کے دلائل میں کتنی ہی بحثیں کرتے رہیں۔
اسلام کا بلند اصول یہ ہے کہ اس جان کو قتل کرنا حرام ہے جسے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے حُرمت والا قرار دیا ہے، مگر سورج کی طرح واضح دلیل اور صبح کی طرح روشن ثبوت کے ساتھ۔
روحوں کو ختم کرنا صرف محدود قوانین، واضح دلائل اور روشن سنّت کے ذریعہ ہی ہوسکتا ہے۔ لہٰذا کسی کےلئےجائز نہیں ہے کہ کسی حُرمت والے خون یا کسی معصوم اور محفوظ جان کے بارے میں ہلاکت کے گڑھے میں پڑے، چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر، مگر واضح دلیل اور حجّت کے ساتھ۔
دوسرا خطبہ:
أما بعد۔۔۔
اُمّتوں او رمعاشروں کو سب سے زیادہ جان، عزّت اور مال کی حفاظت کا رزق دیا جاتا ہے۔ اللہ کے بندو امن کی حفاظت خاص طور سے شرعی اور دنیاوی طور پر یقینی بنانے کی ضرورت ہے، کیونکہ اس کے بغیر نہ لوگوں کی دنیا درست ہوسکتی ہے اور نہ ان کا دین ٹھیک ہوسکتا ہے۔
اے مؤمنو!
امن کی حفاظت سب پر واجب ہے، اسی وجہ سے یہ لازم ہے کہ ہم ہر ایسی چیز کو روکنے کے لئے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں جو امن میں خلل ڈالے، اس خلل کی شکل اور قسم جیسی بھی ہو، ہر اس رکاوٹ کو بھی روکیں جو امن کو چیلنج کرے چاہے وہ گمراہ سوچ اور ٹیڑھی خواہشات والے ، کم عقل اور دین سے ہٹے لوگوں کے تصرّفات میں سے ہو یا چور، ڈاکو اور ان کے علاوہ مجرموں کے گناہ اور سرکشوں کے کاموں میں سے ہو۔
اے مؤمنو!
امن میں رکاوٹ بننے والوں اور اس کے ساتھ کھیلنے والوں کا محاصرہ کرنا ہمارے مشترکہ ضروری کاموں میں سے سب سے اہم ہے جسے یقینی بنانے کے لئے ہم سب کو ایک دوسرے کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہئے۔ لہٰذا ہم سب کو پہرہ دار آنکھ بننا چاہئے جو اسلامی ممالک کے امن کی حفاظت کرے اور ان کی زمین کا دفاع کرے۔ ہم اس کی وجہ سے دنیا کی کامیابی اور آخرت کے ثواب کی امید رکھتے ہیں۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ((اور مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ وہ نیکی کی تلقین کرتے ہیں، اور برائی سے روکتے ہیں۔))
مؤمنین کے منتظمین کا سب سے زیادہ تاکیدی کام یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کی ہر بھلائی حاصل کرنے اور ہر بُرائی کو دور کرنے میں مدد کریں۔ بھلائیوں کا یقینی طور پر مل جانا اور برائی کا ہٹ جانا ، ناپید یا کم امن میں ممکن نہیں ہے۔
((اے ہمارے پروردگار! ہمیں کافروں کا تختۂ مشق نہ بنایئے، اور ہمارے پروردگار! ہماری مغفرت فرمادیجئے۔ یقیناًً آپ، اور صرف آپ کی ذات وہ ہے جس کا اقتدار بھی کامل ہے، جس کی حکمت بھی کامل۔))
خطبة ربنا لا تجعلنا فتنة للذين كفروا