×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

مکتبہ / جمعہ کے خطبہ جات / تربیت اور تعلیم کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا طریقہ

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:7387
- Aa +

خطبۂ اول:

تمام تعریفیں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہی کے لئے ہیں ، ہم سب اسی کی تعریف بیان کرتے ہیں  اوراسی سے مدد طلب کرتے ہیں۔ جس کو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہدایت دیں تو اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں  ہےاور جس کو گمراہ کردیں تو اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے ۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔

امابعد!

        اللہ کے بندو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے ڈرو اور جان لو کہ اُمّتوں اور معاشروں کی بنیاد کا سب سے اہم جوہر تربیت اور تعلیم ہے، کیونکہ یہ  دونوں اُمّتوں اور قوموں کو مزیّن کرتی ہیں، اسی پر معاشرے قائم ہوتے ہیں، اور سوسائٹی کی بنیاد رکھی جاتی ہے، اخلاق درست ہوتے ہیں، لوگوں کا تزکیہ کیا جاتا ہے، مقاصد واضح ہوتے ہیں اور فوائد حاصل کیے جاتے  ہیں۔

        نبی کریم ﷺ کی بعثت سے پہلے اُمّت جہالت اور اندھیروں کی سخت تاریکیوں میں زندگی بسر کررہی تھی اور بیہودگی اور بدبختی ان کی رہنمائی کررہی تھی۔ ان کا نہ کوئی مقصد تھا اور نہ کوئی غرض۔ اُمّت اس جہالت میں غائب اور ختم ہورہی تھی جسے تعصب ہلاک کر رہا تھا ، اسے تکبّر اور حمایت ٹکڑے ٹکڑے کررہی تھی اورفرضی کہانیاں اور بت پرستی ان میں پرورش پارہی تھی۔

        عصبیت اور نسل پرستی ان کا صفایا کررہی تھی۔ اُمّت کی زندگی میں کوئی تاثیر اور رونق نہیں تھی۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ جو کہ انسان کےپیدا کرنے والے ہیں وہ ان سے سخت ناراض تھے۔ صحیح مسلم کی حدیث میں نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں: ’’اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے اہلِ زمین کو دیکھا تو عرب اور عجم سب سے سخت ناراض تھے، مگر باقی اہلِ کتاب سے۔‘‘

        پھر اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے اپنی رحمت اور اپنے فضل سے قابلِ فخر نعمت یعنی رسول اللہ ﷺ بھیجے تاکہ وہ لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالیں۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ((حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مؤمنوں پر بڑا احسان کیا کہ اُن کے درمیان اُنہی میں سے ایک رسول بھیجا جو اُن کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے، اُنہیں پاک صاف بنائے اور اُنہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، جبکہ یہ لوگ اس سے پہلے یقیناً کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔))

        رسول اللہ ﷺ پاک صاف کرنے والے، تربیت کرنے والے، تعلیم دینے والے اور اصلاح کرنے والے بن کر تشریف لائے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے بہت زیادہ محنت اور کوشش کی اور اپنی جان اور اپنا مال خرچ کیا یہاں تک آپ ﷺ جو چاہتے تھے اسے حاصل کرلیا۔ اپنے صحابہ کی مکمل تربیت فرمائی اور انہیں اچھی تعلیم دی، چنانچہ وہ یکتائے روزگار قوم بنے جن کی کوئی نظیر اور مثال نہیں ملتی۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ فرماتے ہیں: (((مسلمانو!) تم وہ بہترین اُمّت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لئے وجود میں لائی گئی ہے۔ تم نیکی کی تلقین کرتے ہو، بُرائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ اگر اہلِ کتاب ایمان لے آتے تو یہ ان کے حق میں کہیں بہتر ہوتا۔ ان میں سے کچھ تو مؤمن ہیں، مگر ان میں سے اکثریت نافرمان ہے۔))

        وہ اُمّت کے سردار، جہان کے امام اور اس میں سکون رکھنے والے  بن گئے، بڑے بڑے ممالک تاریخ کے معمولی وقت میں ان کے تابع دار اور فرمانبردار بن گئے ، چنانچہ کسری کی بادشاہت ختم ہوگئی، قیصر کی بادشاہت ٹوٹ گئی اور لوگ فوج در فوج اللہ کےدِین میں داخل ہورہے تھے۔ پاک ہےاللہ ربُّ العالمین جو بہت عظمت والا ہے اور تمام تعریفیں اللہ کی ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔

اے مؤمنو!

        یہ بڑی تبدیلی اور عظیم کامیابی جسے رسول اللہ ﷺ نے اُمّتوں اور قوموں کی بناوٹ میں ثابت کرکے دکھایا جس کی وجہ سے اُمّت خون ریزی سے پہاڑوں کی بلندی تک پہنچ گئی۔ یہ ایسی تربیت کا نتیجہ تھا جس میں تعلیم ، دعوت اور پختگی تھی جس کے آثار اور بلندی ہے۔ جب اُمّت میں تنزّلی، ٹوٹ پھوٹ، ذلّت اور کمزوری آگئی تو  یہی چیزیں اصل مرہم اور  دواثابت ہوئیں۔ دعوت دینے  والوں، تربیت کرنے والوں اور سکھانے والوں پر لازم ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے طریقے اور تربیت، تعلیم اور دعوت میں آپ ﷺ کے راستہ پر غور کریں اور اس طریقہ کی متانت اور تحقیق،  اس کے نشانات کی تحدید اور اس کی عادت اور خصوصیات کےاستنباط کے لئے  تدریس کریں،  کیونکہ اس اُمّت کے آخری لوگوں کی اصلاح اسی طریقہ سے ہوگی جس سے اس اُمّت کے پہلے لوگوں کی اصلاح ہوئی۔    بھائیو آپ کو اس کی کچھ خصوصیات بیان کی جارہی ہیں:

        اس ربّانی طریقہ کی خصوصیات میں سے لوگوں کا اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی عبادت کرنا اور ان کی ہر اس چیز سے آزادی ہے جو ان کی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی عبادت کو مجروح کرے۔ یہ تمام رسولوں کی مشترکہ خصوصیت ہے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ فرماتے ہیں: ((اور واقعہ یہ ہے کہ ہم نے ہر امت میں کوئی نہ کوئی پیغمبر اس ہدایت کے ساتھ بھیجا کہ تم اللہ کی عبادت کرو، اور طاغوت سے اجتناب کرو۔))

        تمام رسولوں کی دعوت کا خلاصہ مخلوق کی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی عبادت ہے۔اس  خصوصیت نے مخلوق کے مقصد کو واضح کیا اور فطرت کی پکار کو لبّیک کہا۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ فرماتےہیں: ’’اور میں نے جِنّات اور انسانوں کو اس کے سوا کسی اور کام کےلیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘

        رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: ’’ہر بچے کی فطرت پر پیدائش ہوتی ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی اور مجوسی بناتےہیں۔‘‘ فطرت اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی عبادت میں  وحدانیت ہے۔ تعلیم اور تربیتی طریقے میں اس خصوصیت کا نہ ہونا توازن میں بگاڑ، سوچ میں فساد، انسانی طاقت کے ٹکڑے، انسانی فطرت سے تصادم اور فضیلت، اقدار اور قدروں کو ختم کرنے کی طرف لے جاتا ہے۔

        اس نبوی طریقہ کی خصوصیات میں سے لوگوں کے مقاصد کو صحیح اور درست کرنے پر تربیت ہے خاص طور پر جب کہ علم شرعی اور دینی ہو۔

        حضرت أبو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے وہ علم جس سے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی رضا حاصل کی جاتی ہے اس لئے سیکھا کہ اس  کے ذریعہ دنیا کا سامان حاصل کرے تو ایسا انسان قیامت کے دن جنّت کی خوشبو بھی نہیں پاسکے گا۔‘‘

        دنیوی علوم میں اچھی نیت اور بہتر ارادے کو ذہن  میں رکھنا چاہئے۔ اُمّت کی ضرورتوں کو پورا کرنا یا اس طرح کی اور چیزیں ایسے اسباب ہیں جن کی وجہ سے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی طرف سے ثواب، مدد اور توفیق  ملتی ہے، کیونکہ نیک نیت احسان اور تقویٰ کا حصہ ہے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ فرماتے ہیں: ((یقین رکھو کہ اللہ ان لوگوں کا ساتھی ہے جو تقویٰ اختیار کرتےہیں اور جواحسان پر عمل پیرا ہیں۔))

        یہ انسان اس کے برابر نہیں ہوسکتا جس نے تربیت اور تعلیم کو تنخواہ والے وظائف یا اجتماعی مراکز میں ترقی حاصل کرنے کی سیڑھی بنا لیا ہے۔ یا ان چیزوں کو ذاتی عزّت اور اپنی کمائی کے ادارے بنانے کا راستہ بنا لیا ہے۔

        اس بات میں کوئی شک نہیں ہےکہ یہ گھٹیا نیتیں تربیتی اور تعلیمی عمل میں بہت زیادہ بُرا اثر کرتی ہیں، کیونکہ بے فکر انسان غمگین انسان کی طرح نہیں ہوسکتا۔

        اس ربّانی طریقے کی یہ بھی خاصیت ہے کہ علم کا عمل کےساتھ تعلّق ہوجاتا ہے، کیونکہ علم درخت اور عمل اس کاپھل ہے۔ رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کو علم اور عمل سکھاتے تھے۔ علم بغیر عمل کے اپنے ساتھی کے خلاف حجّت ہے۔

        جب نوجوان کا علم اس کے دل کو ہدایت

                اور اس کے کردار کو انصاف اور اخلاق کے اعتبار سے زیادہ نہ کرے

        تو اسے خوشخبری دے دو کہ اللہ نے اسے ایک نعمت سے فضیلت دی

                جسے اس نے اس شخص کی طرح بُرا بنا لیا جو بتوں کی عبادت کرتا ہے

اے مؤمنو!

        وہ چیز جو علم کی عمل سے جدائیگی کو پختہ کردیتی ہے اور علم اور عمل کے تناقض کو جمادیتی ہے وہ وہ بات ہے جس میں بہت سارے طلباءجی رہے ہیں کہ وہ جو چیز سیکھ رہے ہوتے ہیں وہ ان چیزوں کے بہت زیادہ مخالف اور اُلٹ ہوتی ہیں جو وہ محسوس کرتے اور دیکھتے ہیں، بلکہ اس کے بھی مخالف ہوتی ہے جن کا  وہ اپنی زندگی اور تجربہ میں مشاہدہ کررہے ہوتے ہیں۔

        اس کی مثالوں میں سے یہ بات ہے کہ علم کا حصہ  اور اس کی روشنی یہ بات سکھاتی ہے کہ جھوٹ بُری عادت اور گناہ ہےپھر ہم کئی نشرواشاعت کے ذرائع سے سنتے ہیں کہ جھوٹ کی کئی قسمیں اور صورتیں ہیں، ان کا حکم ان کی قسم اور صورت کے مختلف ہونے سے مختلف ہوجاتا ہے۔

        ہم یہ بات بھی جانتے ہیں کہ لڑکے اور لڑکی کے ملنے کی صورت صرف شرعی طور پر نکاح ہی ہے ۔ پھر ہم ان ذرائع سے سنتے اور ان میں دیکھتے ہیں کہ لڑے اور لڑکی کے درمیان تعلّق کو دوستی اور رفاقت کہا جاتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان کچھ تعلّقات کو نیک، شریف اور بے داغ محبّت کہا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ دیگر نام بھی انہیں دیئے جاتے ہیں جو ہمیں رسول اللہ ﷺ کا وہ ارشاد یاد دلاتے ہیں: ’’میری اُمّت کے کچھ لوگ شراب کاکچھ اور  نام رکھ کر اسے پئیں  گے۔‘‘

        یہ کوئی حیرانی والی بات نہیں ہے کہ معاشرے میں رہنمائی کے ان ذرائع کے درمیان تناقض کے اُمّتوں اور معاشروں پر بہت برے اثرات ہیں، ان میں سے سب ہلکے درجےکا برا اثر علم اور عمل کےدرمیان مضبوط جدائیگی، فکری تقسیم اور گہری انسانی پریشانیاں ہیں۔ کیونکہ یہ بات معلوم ہے کہ دنیا کے اطراف میں معاشروں نے جسے اوپر والا ہاتھ فرض کرلیا ہے وہ کتابوں اور تعلیمی نصاب میں مثال اور نمونہ نہیں ہے۔

        اس ربّانی اسلوب کی خاصیت میں سے اقدار اور معاشرے کی رعایت بھی ہے، لہٰذا یہ اسلوب ہر چیز کو اس کا وہی حصہ دیتا ہے جو اس کے مناسب ہوتا ہے اور ضرورت کو پورا کرتاہے۔ اسی سے ہمیں ان بعض تعلیمی اداروں کی غلطی معلوم ہوجاتی ہے جس کا وہ مرد اور عورت کے درمیان اسلوب، تعلیمی نصاب، سماج، سفر اور اقدار میں مکمل برابری کی صورت میں تجربہ کررہے ہیں۔ 

        بلکہ یہ غلطی اسکول اور کالجوں میں مرد اور عورت کے میل جول کی حد تک پہنچ جاتی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ اُمّت مسلسل اس کی ہلاکت کا نتیجہ حاصل کررہی ہے  اور بہت سارے مسلمان ممالک میں پچھتاوے کی کھیتی کاٹ رہی ہے۔ اس طرح کیوں نہیں ہوگا؟! وہ ذات جو خوب جاننے والی اور باخبر ہے اس نے فرمادیا ہے: ((اور لڑکا لڑکی جیسا نہیں ہوتا۔))

        جو شخص مردوں کو عورتوں کے برابر کرنے کی کوشش کرے تو اس نے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی اس کی خلقت اور شریعت میں مخالفت کی۔ لہٰذا  تعلیم کے تمام مراحل میں ان دونوں جنسوں کے درمیان جدائیگی رکھنا اور ان میں سے ہر ایک کو وہ علوم دینا ضروری ہیں جو اس کے مناسب اور لائق ہیں اور جن کے وہ محتاج ہیں۔

دوسرا خطبہ:

أما بعد۔۔۔

        تعلیم اور تربیت میں نبوی اسلوب کی خاصیت میں سے مسلسل تعلیمی عمل اور تعلیم اور تربیت کے کسی بھی مرحلے پر اس کی حد بندی نہ ہونا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اُمّت کو  قرآن مجید میں بار بار غورو فکر کرنے پر ابھارا ہے جو تمام علوم کی بنیاد اور دینی اور شرعی احکامات کا سرچشمہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: ’’قرآن مجید کی دیکھ بھال کرتے رہا کرو۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ محمد کی جان ہے قرآن مجید اونٹ کے جلدی سے اپنی رسی چھڑا کر چلے جانے سے بھی زیادہ جلدی چلا جاتا ہے۔‘‘

        ایک عالم فرماتے ہیں: ’’ہمیشہ جاننے والے اور سیکھنے والے رہو، کیونکہ اگر تم اس سے بے پرواہی کروگے تو جاہل بن جاؤگے۔‘‘ ہمارے نزدیک علم دوات سے موت تک ہوتا ہے۔ لیکن جب  ہمارے بہت سارے طلباء سے یہ سوچ ختم ہوگئی تو ہم نے دیکھا کہ بہت ساری ڈگریوں والوں کا پڑھنے، تعلیم،  مطالعے اورتحقیق سے مقصد گریجویشن کی ڈگریاں حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ چیز علم کو کمزور اور اسے ختم کردیتی ہے۔ علم جس چیز کی وجہ سے زیادہ ہوتا ہے، ترقی کرتا ہے اور پختہ ہوتا ہے وہ علم ہی ہے۔ جیسا کہ شاعر کہتا ہے:

        کچھ آج اور کل بھی اسی طرح علم   

                کا منتخب حصہ حاصل کرنا چاہئے

        انسان علم سے حکمت حاصل کرتا ہے

                قطرہ قطرہ جمع ہونے سے دریا بن جاتا ہے

        نبوی اسلوب کی خاصیت میں سے علم کو زندہ کرنا، اور پھیلانا ،عام کرنا اور علم سے فائدہ حاصل کرنے والوں کا دائرہ کشادہ کرنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: ’’اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اس انسان کو سرسبزوشاداب رکھیں جو میری بات سنے، اسے محفوظ رکھے پھر اسےآگےپہنچادے۔ بہت سارے سمجھ بوجھ والے ان لوگوں کو یہ باتیں پہنچادیتے ہیں جو ان سے زیادہ سمجھدار ہوتے ہیں۔‘‘

        رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ’’اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اور اس کے فرشتے لوگوں کو بھلائی سکھانے والے کے لئے رحمت بھیجتے ہیں۔‘‘

        علم کو عام کرنا اوراسے پھیلانا نیکی کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جس سے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا قرب حاصل کیا  جاتا ہے۔ علم کی طرح طرح کی اقسام اور انواع اٹھانے والوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے علوم کو لوگوں کے درمیان پھیلائیں اور عام کریں اور ہم میں سے کسی کو اس طرح ہونا چاہئے:

        سمندر کی طرح جو اپنے قریب والوں کو جواہرات دیتا ہے

                اور سخاوت کرتا ہے اور دور والے کے لئے بادل بھیجتا ہے

        تربیت اور تعلیم  میں نبوی طریقہ کی خاصیت میں سے اُمّت کے بیٹوں کو تمام توانائیاں دینا اور مل جل کر کام کرنے، دوسروں کے کام آنے اور تعمیری صلاحیتوں کی روح پھونکنا، اپنی  ذمہ داری کو برداشت کرنے اور  اپنے  فرائض کو انجام دینے کی تربیت بھی ہے۔

        نبی کریم ﷺ کی سیرت میں غور وفکر کرتےہوئے ایک جلد لمحہ بھی یہ اہم خصوصیت واضح کردیتا ہے۔

        جنہوں نے أبو جہل۔ اس اُمّت کےفرعون۔  کو قتل کیا تھا کیا وہ عفراء کے نوعمر بیٹے نہیں تھے؟

        کیا رسول اللہ ﷺ نے حضرت أسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو رومیوں سےجہاد کے لئے جھنڈا نہیں تھمایاتھا اوراس وقت وہ بیس سال کے بھی نہیں ہوئے تھے؟!

        کیا صحابیات رضی اللہ عنہن رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جہاد میں تشریف لےجا کر مریضوں کو دوائی اور زخمیوں کا پانی نہیں پلاتی تھیں؟!

        کیوں نہیں، یہ سب کچھ ہوا۔ مربّی حضرات، اساتذہ اور کاموں کے نگرانوں پر یہ لازم ہے کہ اُمّت کی تمام ترطاقتیں اسلام کی خدمت  اور مشکلات کی مدد میں صرف کریں، یہاں تک کہ کمزور اور مساکین بھی جن کے ذریعہ اُمّت کی مدد کی جاتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:  ’’مجھے اپنے کمزورلوگوں میں تلاش کرو۔ تمہاری مدد اور تمہیں رزق تمہارے کمزور لوگوں کی وجہ سے ہی دیا جاتا ہے۔‘‘

اے ایمان والو!

        اُمّت کی اصلاح اور قوموں کی تعمیر کے لئے یہ ربّانی اور نبوی اسلوب کی کچھ خصوصیات ہیں۔ یہ خصوصیات اپنا پھل دے چکی ہیں، اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ اس کی وجہ سے بہترین اُمّت لائےجو لوگوں کےفائدہ کے لئے وجود میں لائی گئی۔  وہ اُمّت عالم کےکانوں، آنکھوں اور دل پر ایک طویل عرصہ تک چھائی رہی۔ جب اُمّت نے ان نشانیوں  سے منہ موڑا اور ان خصوصیات کو ختم کردیا تو اس نے اُمّت کی تعلیم اور تربیت میں بہت بڑاشگاف اور ملاوٹ چھوڑی اور یہ بہت ساری ذلّت اور مصیبتوں کا سبب بنا۔

        اس مصیبت سےنکلنے اور ان دشواریوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کا  دعوت، تعلیم، تربیت اور ذہن سازی میں نبوی اسلوب کے لازم  پکڑنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ اس انحراف کی اصلاح کی ہم سب کی اپنی طاقت اور قدرت کے مطابق ذمّہ داری ہے۔

        باپ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت ٹھیک طریقہ سے کرے  اور تربیت کے معاملے میں جو کمی ہو اسے پورا کرے۔ سکولوں اور کالجوں پر یہ لازم ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے تربیت کے اسلوب اور تدریس کے طریقوں کو دیکھیں۔ معاشرے پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنی تمام توانائیاں اور مؤثر وسائل کو اس مطلوبہ مقصد کے  حاصل کرنے کےلئے   کام میں لائیں، کیونکہ اُمّتیں جس حقیقی دولت کی مالک ہیں وہ ان کے بیٹے اور آدمی ہیں۔ کوئی غلط سمجھنے والا یہ نہ سمجھے کہ تربیت اور تعلیم کسی خاص شعبے کی ذمہ داری ہے، بلکہ ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے: ’’تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی نگہبانی کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘  

خطبة: منهج النبي صلى الله عليه وسلم في التربية والتعليم

ملاحظہ شدہ موضوعات

1.

×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں