×
العربية english francais русский Deutsch فارسى اندونيسي اردو

خدا کی سلام، رحمت اور برکتیں.

پیارے اراکین! آج فتوے حاصل کرنے کے قورم مکمل ہو چکا ہے.

کل، خدا تعجب، 6 بجے، نئے فتوے موصول ہوں گے.

آپ فاٹاوا سیکشن تلاش کرسکتے ہیں جو آپ جواب دینا چاہتے ہیں یا براہ راست رابطہ کریں

شیخ ڈاکٹر خالد الاسلام پر اس نمبر پر 00966505147004

10 بجے سے 1 بجے

خدا آپ کو برکت دیتا ہے

فتاوی جات / حج و عمرہ / محرم کے لئے تہبند اور پیٹی کوٹ وغیرہ کا استعمال

اس پیراگراف کا اشتراک کریں WhatsApp Messenger LinkedIn Facebook Twitter Pinterest AddThis

مناظر:1903
- Aa +

سوال

محرم کے لئے تہبند اور پیٹی کوٹ وغیرہ کے پہننے کا کیا حکم ہے، اور کیا سلے ہوئے کپڑے نہی میں داخل ہیں؟

ما حكم لبس الوزرة والتنورة للمحرم، وهل تدخل في النهي عن لبس المخيط

جواب

اما بعد۔

محرم کو لباس وغیرہ کے پہننے سے منع کرنے کے بارے میں اصل بات وہی ہے جس کو بخاری و مسلم نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی آنجناب صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگا کہ؛ـــ’’اے اللہ کے رسول ! ایک محرم آدمی لبا س میں سے کیا پہن سکتا ہے؟ آپصَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ ؛’’محرم شخص نہ کرتہ پہن سکتا ہے ، نہ عمامہ ، نہ پائجامہ اور نہ لمبی ٹوپی والا جبہ اور نہ ہی موزے، ہاں جس کے پاس جوتے نہ ہو تو وہ موزے تو پہن لے لیکن ان کو نیچے ٹخنون سے کاٹ لے ، (پھر فرمایا) کہ آپ ایسے کپڑے بھی نہ پہنو جن کو زعفران یا ہلدی نے چھوا ہو‘‘۔ پس حدیث میں لباس کے متعلق جو مذکور ہے اس کے علاوہ اگر کوئی زائد چیز سے روکتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اس کے بارے میں دلیل پیش کرے ، آپ خود ذراسوچیں کہ آپﷺنے اس آدمی کے جواب میں جو ارشاد فرمایا اس میں ا ن چیزوں کا ذکر ہے جن کا پہننا محرم کے لئے جائز نہیں ہے نہ کہ ان چیزوں کا جن سے محرم کو لباس وغیرہ کے پہننے سے روکا جا رہا ہے اس لئے یہ اس بات پر دلیل ہے کہ محرم کو کن چیزوں سے اجتناب کرناہے اور جس لبا س سے اس کو روکا جا رہا ہے وہ محصور ہے ، لہٰذا اللہ کے رسولﷺنے اَولیٰ کو ذکر فرمایا اور اس کے علاوہ جو رہ گیا اس کاحکم اباحت پر مبنی ہے اس لئے کہ مباح تو غیر محصور ہے، پس محرم کا ایسا تہبند پہننا جس کو باندھنے کے لئے اس نے اس میں کوئی ازار بند وغیرہ ڈالا ہو تووہ بھی اسی حکم پر مبنی ہے ، اس لئے وہ اس کے ساتھ تہبند کے حکم سے نکلتا کیونکہ اس کی ممانعت کی کوئی وجہ نہیں ہے، اور یہی حنفیہ شافعیہ اور حنا بلہ کا مذہب ہے۔

امام سرخسی ؒ فرماتے ہیں کہ ہشام نے محمد ؒ سے ذکر کیا ہے کہ:’’اگر محرم کو تہبند نہ ملے اور وہ ازار بند کی جگہ کے علاوہ شلوار کو چاک کردے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اس لئے کہ اس وقت وہ اسے بمنزلۂ تہبند کے پہنے گا‘‘۔

اور امام کاسانی ؒ فر ماتے ہیں کہ:’’اسی طرح اگر اسے تہبند نہ ملے اور اس کے پاس شلواریں ہوں تو اگر وہ ازار بند کی جگہ کے علاوہ ان کو چاک کر کے بطورِتہبند باندھ لے تو کوئی حرج نہیں، اس لئے کہ جب اس نے ان کو چاک کردیا تو وہ بمنزلۂ تہبند کے ہی ہوگیا‘‘۔

اور امام نووی ؒ فرماتے ہیں کہ امام شافعی ؒ ، امام مصنف ؒ اور باقی ائمہ کے نصوص اس بات پر متفق ہوگئی ہیں کہ اگر محرم تہبند باندھے اور اس پرکوئی دھاگہ اور اس کے لئے کوئی کمربند جیسی چیز بنائے اور پھر اس میں ازار بند ڈالے تو یہ جائز ہے، اس لئے کہ ازاربند کے علاوہ تو تہبند مضبوط ہوتی نہیں، اسی طرح امام مصنف ؒ اور باقی اصحاب نے اپنے تمام طریق میں اس کی صراحت فرمائی ہے ۔

باقی آپ نے جو تہبند بنانے کے بارے میں پوچھا ہے ان جیسی چیزوں کے بارے میں بھی ان حضرات کا یہی قول ہے۔

بلکہ ہمارے شیخ کا یہ کہنا ہے کہ’’پیٹی کوٹ جیسی کا مطلب یہ ہے کہ اس کے ایک کنارے کو لپیٹا جائے اور پھراس کو ایسا سی لے کہ وہ لباس میں ازار بند کی جگہ کی طرح ہو جائے اور یہ سینا مضر نہیں ہے اس لئے کہ یہ سلائی کے ذریعے بدن کااحاطہ نہیں کئے ہوئے بلکہ یہ تو اب بھی نفس ِ ازار میں ہے۔

اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ’’ اگر شلوار کو چاک کرکے اس سے تہبند بنایا جائے تو یہ بالاجماع جائز ہے ۔

بعض مالکیہ فقہاء نے محرم کے تہبند کے لئے از ار بند استعمال کرنے کی ممانعت پر صراحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:’’محرم اپنے تہبند کے اوپر نہ تو ازار بند باندھے گا اور نہ ہی کوئی دھاگہ وغیرہ‘‘۔

اور رہی بات تہبند کے دونوں سروں کو دھاگے وغیرہ سے باندھنے کی تو اس سے مالکیہ اور شافعیہ نے صراحتاََ منع فرمایا ہے۔

امام صاوی ؒ فرما تے ہیں:’’ اگرچہ کسی گرہ یا بٹن سے اس کا احاطہ ہوا ہو جیسا کہ (مثال کے طور پر) وہ تہبند کے دونوں سروں کو گرہ لگادے یا اس میں بٹن لگادے یا پھراس کو پیٹی کوٹ سے باندھ دےــ‘‘۔

اوریہ بھی فرمایا:’ ’ اور نہ ہی اس کے ایک سرے کے ساتھ دھاگے وغیرہ سے باندھنا ، اگر اس نے ایسا کیا تو اس کو فدیہ لازم ہو جائے گا اس لئے کہ یہ سلے ہوئے کپڑے کے معنی میں ہے کہ وہ اس کے ذریعے اپنے آپ کو مضبوطی سے تھامتا ہے‘‘۔

لیکن جہاں تک مجھے نظر آ رہا ہے تو میرے نزدیک ایسے تہبند کے پہننے میں کوئی مضائقہ نہیں جس کے دونوں سروں کو سی لیا گیا ہو، اور اس کو مضبوط کرنے کے لئے اس میں ازار بند بھی رکھاہو اس لئے کہ اس طرح کے کرنے سے وہ ازار کے حکم سے نہیں نکلتا ، اس لئے کہ علماء ، فقہاء اور محدثین کی ایک جماعت یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ تہبند وہی ہوتا ہے جس کو درمیان سے باندھا جاتا ہے اور یہ وصف ازار کے اس قسم پر صادق آتاہے۔

اور جو لوگ اس کی ممانعت کے قائل ہیں کہ اس طرح کے کرنے سے ازار سلا ہوا بن جاتا ہے تو اس کا جواب یوں دیا جائے گا کہ نہ تو حدیث میں اور نہ ہی صحابہ میں سے کسی صحابی کے کلام میں محرم کو سلے ہوئے کپڑوں کے پہننے سے منع کرنے کے بارے میں کچھ آیا ہے ، جیسا کہ فقہاء میں کسی کا یہ قول ہے کہ محرم کو سلے ہوئے کپڑو ں سے منع کرنے سے مراد بالکلیہ منع کرنا نہیں ہیء، لہٰذا اس طرح ان کے درمیان پیوند لگی ہوئی چادر یا تہبند کے پہننے کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں جیسا کہ انہوں نے سلے ہوئے کپڑوں سے محرم کی ممانعت کو ان قمیصوں وغیرہ پر مقصور نہیں کیاجوسلے گئے ہوں ، بلکہ انہوں نے ہر اس چیز کی ممانعت کے بارے میں کہا ہے جو بدن کے کسی عضو پر کاٹا گیا ہو چاہے وہ سلا ہوا ہویا بُناہوا ہو وغیرہ وغیرہ۔

اور ممانعت کے جواب میں ایک قول یہ بھی ہے کہ تہبند کی یہ قسم اس میں سے نہیں ہے جس کی اللہ کے نبی نے صرا حت فرمائی ہے کہ ؛’’محرم شخص نہ کرتہ پہن سکتا ہے ، نہ عمامہ ، نہ پائجامہ اور نہ لمبی ٹوپی والا جبہ اور نہ ہی موزے، ہاں جس کے پاس جوتے نہ ہو تو وہ موزے تو پہن لے لیکن ان کو نیچے ٹخنون سے کاٹ لے ، (پھر فرمایا) کہ آپ ایسے کپڑے بھی نہ پہنو جن کو زعفران یا ہلدی نے چھوا ہو‘‘۔ پس اس کو اس کے ساتھ ملانے کی وجہ نہیں ہے، ہمارے شیخ عثیمین ؒ نے تہبند کی اس قسم کو قولاََ و عملاََجائز قرار دیاہے۔

آخر میں میں اپنے بھائیوں کو تنبیہ کرتا ہوں کہ یہ مسئلہ حاجیوں کے درمیان جنگ و جدال اوربحث و مباحثے کا سبب نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ اس سے منع کیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے (ترجمہ) ’’ حج کے چندمتعین مہینے ہیں ، چنانچہ جو شخص ان مہینوں میں (احرام باندھ کر ) اپنے اوپر حج لازم کرلے توحج کے دورا ن نہ وہ کوئی فحش بات کرے،نہ کوئی گناہ اور نہ کوئی جھگڑہ‘‘۔

اور آدمی کی سمجھداری یہی ہے کہ جب اسے یہ پتہ ہو کہ یہ اسے جنگ وجدال میں مبتلا کرے گا تو اگر وہ اس قسم کے ازارسے مستغنی رہ سکتا ہے تو اسے چھوڑ دے اسی میں بہتری ہے۔

خالد بن عبد الله المصلح
17 /10 /1424هـ


ملاحظہ شدہ موضوعات

1.
×

کیا آپ واقعی ان اشیاء کو حذف کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ملاحظہ کیا ہے؟

ہاں، حذف کریں